مولیٰ مصلح الدین مصطفیٰ بن محمد علی التیرہ وی رومی المعروف بہ بستان آفندی رومی: فقیہ مفسر،صوفی اور کلام،ہئیت و حساب وغیرہ کے فاضل تھے۔عقد منظوم میں لکھا ہے کہ آپ ۹۰۴ھ میں قصبہ تیرہ میں پیدا ہوئے۔طلب علم میں دور دراز کا سفر کیا اور مولیٰ محی الدین فناری،مولیٰ شجاع اور ابنِ کمال پاشا جیسے نامور علمائے عصر سے استفادہ کیا۔سلطان سلیمان ثانی کے معلم مولیٰ خیر الدین کی صحبت میں رہے،پھر کچھ عرصہ مدارس میں رہے،پہلے چند قصبات میں بطور قاضی کام کیا اس کے بعد بُرسہ،ادرنہ اور قسطنطنیہ کے قاضی رہے۔۹۵۴ھ میں قاضی عسکر اناطولیہ[1]بنے،دس ہی روز بعد چوی زادہ کی وفات پر روم [2]ایلی کے قاضی مقرر ہوئے۔پانچ سال اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد معزول ہوئے تو ایک سو پچاس درہم روزانہ پنشن مقرر ہوئی،ان کا شمار بڑے جلیل القدر اور نابالغہ روزگار علماء میں ہوتا ہے۔مناظرہ میں اپنے زبر دست دلائل سے بڑے بڑے علماء و فضلاء کو خامشو کردیتے تھے،حافظِ قرآن تھے اور ہر ہفتے اپنی نمازوں میں پورا قران شریف ختم کیا کرتے تھے۔آخری عشرہ رمضان ۹۷۷ھ میں قسطنطنیہ میں وفات پائی اور بیرون شہر زاویہ سید بخاری کے قریب دفن ہوئے۔
آپ کی تصانیف میں تفسیر بضاوی(سورۃ الانعام) کا حاشیہ،حاشیہ علی الاصلاھ والا یجاح،حاشیہ علی صدر الشریعہ،رسالہ فی الجزء الذے لا یتجزی، رسالۂ قضا وقدر اور نجاۃ الاحباب وتحفہ ذوی الالباب (کیمیا میں)مشہور ہیں۔
1۔ و
2۔ سلطنت عثمانیہ کے نظام عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدے قاضی عسکر کا منصب شیخ الاسلام کے بعد سب سے بلند سمجھا جاتا تھا،علاقہ کے تمام قاضیوں اور مدرسین کا تقرر بھی وہی کرتا تھا،قاضی عسکر دوہوتے تھے ایک روم ایلی کا،دوسرا اناطولیکا،ان میں سے روم ایلی کے قاضی عسکر کا عہدہ زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔سلطنت عثمانیہ کا وہ حصہ جو قسطنطنیہ سے مشرق کی جانت تھا اناطولی اور مغرب کی طرف کا روم ایلی کہلاتا تھا،موجودہ سیاسی تقسیم کے لحاظ سے البانیہ،سر بیا،طبغاریہ،یوگو سلاویہ، یونان وغیرہ روم ایلی میں شامل تھے۔
(حدائق الحنفیہ)