شیخ برہان الدین محمود بن ابی الخیر السعد بلخی: سلطان غیاث الدین بلین کے وقت میں اکابر علماء فضلاء میں سے فقیہ محدث جامع علوم عقلیہ ونقلیہ واقف فنون رسمیہ و عرفیہ صاحب شریعت و طریقت تھے اور شعر عارفانہ کہتے تھے،آپ نے مشارق الانوار کو اس کے مصنف سے سند کیا۔آپ کا قول تھا کہ میں چھہ سات سال کی عمر میں اپنے باپ کے ہمراہ استہ میں چلا جاتا تھا کہ سامنے سے حضرت مولانا برہان الدین مر غینانی صاحب ہدایہ کی سواری آئی اور میں ہجوم میں اپنے باپ سے جدا ہو گیا۔جب مولانا ممدوح کو سورای نزدیک آئی تو میں نے آگے ہو کر سلام کیا۔آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ مجھ کو ایسا کہلاتا ہے کہ یہ لڑکا اپنے زمانہ میں علامہ ہوگا۔میں نے سخن اپنے کانوں سے سُنا اور آپ کے ہمر کاب چل پڑا۔پھر ممدوح نے فرمایا کہ خدا مجھ کو یہ کہلواتا ہے کہ یہ لڑکا ایسا ہوگا کہ بادشاہ اس کے دروازہ پر حاضر ہوں گے۔آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ قیامت کو خدا تعالیٰ مجھ کو کسی گناہ کبیرہ سے نہ پوچھے گا مگر ایک کبیرہ سے،لوگوں نے پوچھا کہ وہ کونسا ہے؟آپ نے فرمایا کہ وہ سماع چنگ ہے جو بہت دفعہ میں نے سُنا ہے۔
وفات آپ کی ۶۸۷ھ میں ہوئی اور قبر آپ کی حوض شمسی کے جانب شرق واقع ہے جس کو تختۂ نور کہتے ہیں،اکثر لوگ واسطے تیزی فہم اور زیادتی علم کے آپ کی قبر کی خاک لڑکوں کو کھلاتے ہیں،’’محدث فہیم‘‘ تاریخ وفات ہے۔
حدائق الحنفیہ