ضباعہ دختر حارث انصاریہ،ام عطیہ کی ہمشیرہ ،ان سے ام عطیہ نے آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے،ترکِ وضوکی روایت کی،ابوعمر نے ان کا مختصراًذکر کیا ہے،لیکن ابن
مندہ اور ابو نعیم نے ترجمہ مفردہ میں ان کا ذکر نہیں کیا،بلکہ ان کا ذکر اس حدیث میں کیاہے،جس میں آگ پر پکّی ہوئی اشیاء کے کھانے پر ترکِ وضو کا ذکر ہے،اور
اسی حدیث میں اشتراط فی الحج کا ذکر ہے،ہم اس کا ذکر کریں گے۔
ابو نعیم نے طبرانی سے،انہوں نے علی بن عبدالعزیز سے،انہوں نے خلف بن موسیٰ بن خلیفہ عجمی سےانہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے اسحاق بن
عبداللہ ہاشمی سے،انہوں نے ام عطیہ سے ،انہوں نے اپنی بہن ضباعہ سے روایت کی،کہ انہوں نے رسولِ اکرم کو حلوہ کھاتے دیکھا،آپ نے نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا۔
اس حدیث کو محمد بن مثنی نے خلف بن موسیٰ سے،انہوں نے اپنے والد سے،اسی طرح انہوں نے ام عطیہ سے،انہوں نے اپنی ہمشیرہ سے روایت کی،اسی حدیث کو اسحاق بن زیاد نے
خلف سے ،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے قتادہ سے،انہوں نے ابوالملیح سے،انہوں نے اسحاق سے،انہوں نے ام عطیہ سے روایت کی،مگریہ غلط ہے،اسی کو ہمام نے قتادہ
سے،انہوں نے اسحاق سے روایت کی،کہ ان کی دادی ام حکیم نے اپنی بہن ضباعہ سے روایت کی،اور ابونعیم نے ابن حمدان سے،انہوں نے حسن بن سفیان سے،انہوں نے ہدیہ بن
خالد سے،انہوں نے ہمام سے ،انہوں نے قتادہ سے انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن حارث سے روایت کی،کہ ان کی دادی ام حکیم نے انہیں بتایا کہ انہیں ان کی بہن ضباعہ
دختر زبیرنے بتایاکہ وہ حضورِاکرم کے پاس گوشت لے کر گئیں،آپ نے اسے دانتوں سے کاٹ کر کھایا،پھر نماز ادا کی،اور ازسرِ نووضو نہیں کیا،اس سے واضح ہوتا ہے کہ
پہلا ترجمہ غلط ہے،کیونکہ ابوعمر نے جب دیکھا کہ ان کی بہن ام عطیہ اپنی بہن سے روایت کرتی ہیں،کہ ام عطیہ انصارسے ہیں،اور چونکہ دختر زبیر قرشیہ ہیں،اس لئے ابو
عمر نے انہیں دوفرد قرار دیا،لیکن یہ دونوں ایک ہیں،کیونکہ ام حکیم ہی دختر زبیر ہیں،اور وہ ضباعہ دختر زبیر کی ہمشیرہ ہیں۔