ڈاکٹر حبیب الرحمن برق
ڈاکٹر حبیب الرحمن برق (تذکرہ / سوانح)
ڈاکٹر حبیب الرحمن برق رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ڈاکٹر حبیب الرحمن برق ابن حضرت حاجی محمد رمضان لدھیا نہ میں پیدا ہوئے اپنے وقت کے ممتاز فاضل سے علم حاصل کیا ، فرنگی محل (لکھنؤ) دیو بند ار جامعہ ازہر ، مصر کے فاضل تھے ۔ کچھ عرصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی رہے ۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریز ی میں ایم ۔ اے کیا ، پی ایچ ڈی کی ڈگری بی حاصل کی ، چاروں زبانون میں بلا تکلف گفتگو فرماتے۔طبقۂ مشائخ میں موجودہ دور میں اس قدر پڑھا لکھا شائد کوئی ہو، حضرت صوفی محمد حسین مراد آ بادی شیخ و مرشد شاہ سراج الحق چشتی کے مریدتھے لیکن تربیت ان کے مرید حضرت مولانا صوفی انور علی شاہ صاحب ( پیلی بھیت) نے فرمائی جو بفضلہ تعالیٰ ابھی تک بقید حیات ہیں ، آپ نے دنیا کے بہت بڑے علاقے کی سیا حت کی ۔ قیام پاکستان کے بعد لاکھوں روپے ی جائید اد و چھوڑ کر پاکستان تشریف لے آئے اور انار کلی (لاہور آرٹ پریس ) کے قریب قیام کیا۔آخری دنوں میں دھنی رام روڈ منقتل ہو گئے ۔
آپ سلا سل ستہ ( قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ صابریہ ، سہروردیہ،قلندریہ اور اویسیہ) میں مجاز تھے ۔ اس قدر با کمال ہونے کے باوجود تمام عمر چٹائی پر بیٹھ کر گزاری، آپ کو اہل دنیا سے کوئی سرو کار نہ تھا، ہر وقت ذکر خدا و مصطفی (جل و علا صلی اللہ تعالیٰ علی وسلم) میں رطب اللساں رہتے ۔ ایک دفعہ راقم الحروف حاضر ہوا تو فرمایا ’’مولوی ! اس وجود کا کیا اعتبار جس کے پہلے بھی عدم ہو اور بعد بھی عدم ‘‘ یعنی حقیقۃ ’’وجودو موجود تو صرف اس کا ذات ہے جو یزل اور لا یزال ہے ۔
علمائے اہل سنت سے انس اور محبت رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’مولانا احمد رضا خاں بریلوی عاشق رسول اور مرد مجاہد تھے ۔وقت آیا تو بتائوں گا کہ وہ کیا تھے ۔‘‘محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد لائپوری نسبت طریقت میں آپ کے بھتیجے (یعنی شاہ سراج الحق چشتی کے مرید تھے جو کہ حضرت صوفی محمد مراد آبادی کے خلیفہ و مرید تھے ) تھے ، ان کا ذکر بری محبت سے فرماتے تھے ، ایک دفعہ فرمایا‘‘ سردار واقعی سردار ہے ، انہوں نے مختصر عرصے میں بہت بڑا کام کیا ہے ‘‘ ایک مرتبہ برادر محترم مولانا محمد عبد الغفار ظفر القادری کومیرے متعلق فرمایا کہ یہ اگر مولانا محمد سردار احمد کا مرید نہیں ہو سکا تو اسے ان کے کسی خلیفۂ مجاز کا مرید کرادو۔‘‘
حضرت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مختلف قسم کے لوگ حاضر ہوتے تھے ، آپ ان سے ایسی گفتگو فرماتے کہ انہیں تسلیم کے سوا کوئی چارئہ کارنہ ہوتا شیعہ مکتب فکر کے مولوی اسمٰعیل ملاقات کے لئے آئے تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’ مولانا ایک شخص اپنی ماں کو گالی دیتا ہے اس کے متعلق کیا فتویٰ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ بڑا بے ادب ہے ، گستاخ ہے وغیرہ وغیرہ ! ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ذرا سوچئے تو سہی کہ جولوگ اپنی بلکہتمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ی گستاخی کرتے ہیں ، ان پر بہتیان طرازی کرتے ہیں ، ان لوگوں کی کیا پوزیشن ہے ؟ مولوی صاحب سے خاموشی کے بغیر کوئی جواب نہ بن سکا۔
ایک صاحب پہلی دفعہ ملاقات کے لئے آئیے اور حسب عادت کہنا شروع کیا کہ دیکھئے بعض لوگ کہتے ہیں’’ یاغوث اعظم دستگیر ‘‘ اور انبیا ء و اولیاء کے لئے علم غیب ثابت کرتے ہیں ، یہ سب شرک ہے ! ڈاکٹر صاحب نے نہایت اطمینان سے تمام گفتگو سنی اور فرمایا میں نبی نہیں ہوں ، نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا غلام ہوں لیکن تمہاری پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں ، بھادرج کو بغیر نکاح کے لئے پھر تے ہو اور پھر انبیاء و اولیاء کے علم پر طعن کرتے ہو، ذرا ہوش سنبھال کر بات کرو، وہ صاحب چپ اٹھ کر چل دئے۔
راقم نے آپ کی پیرانہ سالی میں زیارت کی لیکن اس وقت بھی آپ کا حافظ اس قدر تیز تھا کہ اردو اور فارسی کے بے انداز اشعار آپ کو یاد تھے۔ آپ ایک ماہر طیب تھے ، طبی نسخے لکھواتے تو بلا تکلف کئی کئی ادمیوں کو لکھوا دیتے۔ مریدین کا حلقہ کافی ہے ، انہیں اعمال و اذکار کی تعلیم دیتے ۔ آپ کی گفتگو میں لطیف مزاح اور بدلہ سنجی کی چاشنی بھی بدرجۂ اتم موجود ہوتی تھ جسے صرف پڑھے لکھے لوگ ہی محسوس کرتے تھے اور محفوظ ہوتے تھے۔
۲۰ ذولحجہ ، ۲۰ مارچ ّ(۱۳۸۷ھ/۱۹۶۸ ئ) بروز بدھ آپ کا وصال ہوا اور بہاول پور روڈ میانی صاحب میں دفن ہوئے ، نماز جنازہ برادر محترم جناب مولانا محمد عبد الغفار ظفر القادری نے پڑھائی ۔
وصال سے چند دن قبل کھانا پین ا ترک کر دیا تھا اور صرف جو شاندے کے بپھارے پر اکتفاء فرماتے ۔۔ ایک دن آپ کے صاحبزادے جناب محمد اکرام الھق نے عرض یا کہ کچھ تناول فرمالیں ، آپنے فرمایا تیس سال بعد خدا کرکے میں نے اپنے پیٹ کو طعام سے اک کیا ہے اب پھر اس سیت ملوث کرنا چاہتے ہو ؟
آپ شعر و سخن کا پاکیزہ ذوق بھی رکھتے تھے ، ایک رباعی درج ذیل ہے ؎
ہے مشق ولا بو ترابی ہی نہیں
یہ مے تند ہے گلابی ہی نہیں
کافر ہے جو عل کو خدا کہتا ہے
پی کے جو نہ بہکے وہ شرابی ہی نہیں[1]
[1] یہ تمام حالات برادر مکرم مولانا محمد عبد الغفار ظفر القادری زید مجدہ (لائل پور) نے فراہم کئے ۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)