فاطمہ دختر ضحاک کلابیہ،بقولِ ابنِ اسحاق،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب زینب کی وفات کے بعد،اس خاتون سے نکاح کیا،اور جب آیت تخبیر اتری،تو فاطمہ نے
متاعِ دنیا کو ترجیح دی اور حضورِ اکرم نے علیحدہ کردیا،اس کے بعد فاطمہ کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اونٹ کی مینگنیاں چنتی تھی،اوراپنی بد بختی پر افسوس کرتی
تھی،لیکن یہ روایت غلط ہے،اور صحیح روایت وہ ہے،جو حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب آیت تخبیر نازل ہوئی،تو آپ نے ابتدا مجھ سے کی،اور جب آخرت کو دنیا پر ترجیح
دی تو سب ازواج نے اسی طرح کیا،بقول ِقتادہ اور عکرمہ اس وقت ازواج کی تعداد نوتھی۔
علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے،کہ یہ شقیہ عورت وہ تھی،جس نے حضور کو دیکھ کرعیاذاً باللہ کہاتھا، لیکن اس عورت کو تعیین کے بارے میں اہل السیر میں سخت اختلاف
ہے،ایک روایت میں ہے کہ ضحاک بن سفیان نے اپنی لڑکی جس کانام فاطمہ تھا،آپ کو پیش کی،لیکن اس عورت نے قطعاً اپنے میلان کا اظہار نہ کیا،اس پر آپ نے فرمایا
مجھے اس کی ضرورت نہیں،ایک روایت کے مطابق آپ نے اس سے آٹھویں سالِ ہجری میں نکاح کیا،ابوعمر نے ذکر کیا ہے۔