فاطمہ دختر خطاب بن نفیل بن عبدالعزی قرشیہ عدویہ، حضرت عمر کی ہمشیرہ اور سعید بن زید کی زوجہ تھیں،اور سعید اور فاطمہ ان دس آدمیوں میں شامل ہے،جو اول اول
اسلام لائے تھے،اور یہی خاتون حضرت عمر کے قبول اسلام کا ذریعہ بنی تھیں،مجاہد نے ابنِ عباس سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے،ان کے اسلام لانے
کی وجہ دریافت کی،حضرت عمر نے جواب دیا،کہ حمزہ کے قبولِ اسلام کے تین دن بعد میں گھر سے نکلا،اور راستے میں مجھے بنومخزوم کا فلاں آدمی جو اسلام قبول کر
چکاتھا،ملا میں نے اسے کہا،تونے بھی اپنا آبائی دین ترک کرکے محمد کا دین قبول کر لیا ہے،اس نے کہا،کہ اگر میں نے والدین کا دین چھوڑدیا ہے تو اس کاارتکاب اس
شخص نے بھی کیا ہے،جس پر تیرا بہت زیادہ حق ہے،میں نے پوچھا،وہ کون ہے،اس نے کہا،تیری بہن اور تیرا بہنوئی،میں ادھر کو چل دیا،دیکھا ،کہ درواز ہ بند ہے،اور اندر
سے آوازیں آرہی ہیں،دروازہ کُھلا میں اندر داخل ہوا،تو میں نے دریافت کیا،یہ کس کی آواز تھی ،جو میں نے سُنی،وہ انکار کر رہے تھے، اور میں اصرار کررہاتھا،میں
نے بڑھ کر اپنے بہنوئی کا گریبان پکڑلیا،اور مار مار کر لہولہان کردیا،اسے چھڑانے کے لئے میری بہن اٹھی تو میں اس کی طرف بڑھااس نے کہا،جو کچھ تم کرسکتے
ہوکرلو،ہم اس دین کو نہیں چھوڑسکتے،جب میں نے خون بہتا دیکھا،تو مجھے شرم آگئی،میں نے کہا ،اچھا جو تم پڑھ رہے تھے،وہ دکھاؤ،اس کے بعد حضرت عمر نے اپنے اسلام
کا واقعہ بالتفصیل بیان کیا،تینوں نے اس کاذکر کیا ہے۔