فاطمہ دختر قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر قرشیہ فہریہ، ضحاک بن قیس کی بہن تھیں،اور بروایتے ان سے دس برس بڑی
تھیں،اولین مہاجرین سے تھیں،اور عقل وخرد کی مالک تھی،یہ وہی خاتون ہیں،جنہیں ابوحفص بن مغیرہ نے طلاق دی تھی اور حضورِاکرم نے انہیں اجازت دی تھی،کہ وہ ابن
مکتوم کے گھر میں عدت گزاریں،وہ اپنے بھائی ضحاک کے پاس کوفے میں جہاں وہ بطور امیر مقرر تھے،آگئی تھیں،شعبی کو ان سے سماع حاصل ہوا۔
اسماعیل بن علی وغیرہ نے باسنادہم تا ابوعیسیٰ ہناد سے،انہوں نے جریر سے ،انہوں نے مغیرہ سے ، انہوں نے شعبی سے روایت کی کہ فاطمہ دختر قیس نے انہیں بتایا کہ
میرے خاوند نے مجھے بہ عہدِ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین طلاقیں دے دیں،آپ نے فرمایا،نہ تو تم اس کے گھر ٹھہرسکتی ہو اور نہ اس سے نفقہ لے سکتی ہو۔
جناب فاطمہ کو طلاق ہوگئی،تو معاویہ اور ابو جہم بن حذیفہ دونوں نے نکاح کا پیغام بھیجا،انہوں نے حضورِاکرم سے مشورہ کیا،آپ نے فرمایا،معاویہ تو قلاش ہے،اور
ابو جہم کی لاٹھی ہر وقت اس کے کندھے پر رہتی ہے،اس لئے آپ نے حکم دیا،کہ اسامہ بن زید سے نکاح کرلو،چنانچہ تعمیل ارشاد میں نکاح ہوگیا۔
جب حضرت عمر کو قتل کیا گیا تھا،تو اصحاب شوریٰ کا اجتماع ان کے گھر میں ہواتھا،اس خاتون نے حضورِ اکرم سے کئی احادیث روایت کیں،تینوں نے ذکرکیا ہے۔