فاطمہ دختر ولید بن مغیرہ مخزومیہ جو خالد بن ولید کی ہمشیر تھیں،اور اپنے عمزاد حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی کی زوجہ،فتح مکہ کے موقعہ پر ایمان قبول کیا،ایک
روایت میں ہے کہ حارث کے بعد عمر نے ان سے نکاح کیا،لیکن روایت مخدوش ہے۔
ابنِ مندہ اور ابونعیم نے فاطمہ دختر ولید قرشیہ لکھاہے،اور دونوں نے ان سے حدیث ازار نقل کی ہے،جیسا کہ ہم ذکر کرآئے ہیں،تینوں نے ان کا ذکر کیاہے۔
ابنِ اثیر کہتے ہیں،کہ ابو عمر نے اس حدیث کو فاطمہ دختر ولید بن عتبہ عبثمیہ کے ترجمے میں ذکر کیا ہے،اور ابنِ مندہ اور ابونعیم نے فاطمہ قرشیہ کے ترجمے میں
بیان کیا ہے،اور وہ حدیث قرشیہ مخزومیہ کے بارے میں ہے،اور ہمارے اس استدلال کواس امر سے تقویت مِلتی ہے،کہ بعض راویوں نے اس حدیث کو فاطمہ دختر ولید سے،جو
ابوبکر کی والدہ تھیں روایت کیا ہے،اور وہ شام میں تھی،اور فاطمہ مخزومیہ ہی اپنے خاوند حارث بن ہشام کے ساتھ شام میں تھیں اور جب حارث فوت ہوگئے تو فاطمہ مدینے
آگئیں اور یہی فاطمہ دختر ولید ،ابو بکر کی والدہ تھیں،اور یہی مخزومیہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن ہشام کی دادی تھیں،اور روات ِحدیث کی عادت ہے کہ ماں اور باپ کو
دادای اور داداکہہ دیتے ہیں۔
زبیر بن بکار نے ولید بن مغیرہ کی اولاد کا ذکر کیا ہے،اور لکھا ہے کہ فاطمہ دختر ولید نے عبدالرحمٰن اور ام حکیم دوبچے حارث بن ہشام سے جنے ،اوریہ حدیث فاطمہ
دختر ولید سے مروی ہے۔
کئی راویوں نے اجازۃً حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبتہ اللہ دمشقی سے روایت کی اور لکھا کہ فاطمہ دختر ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کو حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی اور انہوں نے آپ سے صرف ایک حدیث روایت کی ،ان سے ان کے پوتے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے روایت کی،کہ انہوں
نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُنا کہ ازار کو استعمال کرو،وہ اپنے خاوند کے ساتھ شام گئیں،اور ان سے خالد نے بعض معاملات میں مشورہ کیا تھا۔