فقیر نظام شاہ مجذوب
فقیر نظام شاہ مجذوب (تذکرہ / سوانح)
بڑے صاحب حال اور ذوق انسان تھے سُکر استغراق میں رہتے، لاہور میں قیام پذیر تھے، بے پناہ مخلوق عقیدت مند تھی، ولایت اور کرامت کاملہ کے مالک تھے عام طور پر کوچہ و بازار میں گھوما کرتے، مگر کبھی کبھی درزیوں کا کام بھی کرنے لگتے شراب پیتے اور مست رہتے منشیات کھاتے اورمدہوش ہوتے، بایں ہم کشف قلوب کے مالک تھے، بات عارفانہ کرتے اور اپنے وقت کے نبض شناس اور حساس فقیر تھے جو آتا غریبوں میں تقسیم کردیا کرتے۔
لاہور میں جس دن دلیپ سنگھ کا وزیر ہیرا سنگھ قتل ہوا، تو اس دن عیدالاضحیٰ تھی، علی الصباح نظام شاہ مجذوب لاہور میں مسجد محلہ سادھواں (اندرون بھاٹی گیٹ) میں تشریف لائے۔ یاد رہے کہ یہ محلہ میرا (مولف کتاب) اپنا محلہ تھا اور تمام نمازیوں کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ پرانی صفیں اٹھادو، اور نئی صفیں بچھادو، یہ بات سنتے ہی نمازیوں نے اندازہ لگایا کہ آج کوئی انقلاب آنے والا ہے یہ بات خالی از واقعہ نہیں ہوسکتی، نظام شاہ یونہی زور نہیں دے رہے، چنانچہ دوپہر سے پہلے ہی سارے لاہور میں یہ خبر عام ہوگئی کہ ہیرا سنگھ قتل کردیا گیا ہے [۱]۔ دلیپ سنگھ کے ماموں جواہر سنگھ نے دریائے راوی کے کنارے پر ہیرا سنگھ کو قتل کردیا، اور خود وزارت کا قلمدان سنبھال بیٹھا ہے۔
[۱۔ یہ واقعہ لاہور میں رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی خانہ جنگی کا ایک اہم واقعہ ہے ہیرا سنگھ دراصل رنجیت سنگھ کے وزیر دھیان سنگھ کا بیٹا تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بے حد عزیز تھا اس کے نام پر ہیرا منڈی مشہور ہوئی، ہیرا سنگھ نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے قلعہ لاہور محاصرہ کرلیا، اور شاہی مسجد کے میناروں پر توپیں دمدمے نصب کرکے قلعہ میں گولہ باری شروع کردی، اس لڑائی میں لہنا سنگھ مارا گیا رجیت سنگھ بھاگتے ہوا مارا گیا اور اس طرح قلعہ پر ہیرا سنگھ کا قبضہ ہوگیا، اس نے مہا راجہ رنجیت سنگھ کے کم سن بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھایا اور خود وزیر بن کر حکومت کرنے لگا۔
ہیرا سنگھ نے اپنے دو بڑے دشمن سچیت سنگھ (جو اس کا چچا زاد بھائی تھا) اور سردار عطر سنگھ سندھاں والیہ تھے، سچیت سنگھ کو ہیرا سنگھ نے درس وڈا میاں کے قریب ایک لڑائی میں مار دیا اور عطر سنگھ تھا، تیسرے روز لاہور آپہنچا، اور ۲ مئی ۱۸۴۴ کو دریائے ستلج عبور کرکے بھائی بیر سنگھ کے تعاون سے آگے بڑھا مگر عام سکھوں کی لڑائی میں مارا گیا۔
ہیرا سنگھ وزیر کا ایک مشیر پنڈٹ جھلا تھا، وہ ہیرا سنگھ کا استاد بھی تھا، اور پر دہت بھی وہ اقتدار کے نشہ میں اتنا بد مست تھا کہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا یہاں تک کہ مہا رانی جنداں جو دلیپ سنگھ کی والدہ تھی، اس کے ماموں سردار جواہر سنگھ کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا ان لوگوں نے سکھ فوج کو ہیرا سنگھ اور پنڈٹ جھلا کے خلاف بھڑکایا جنہوں نے ۲۱ دسمبر ۱۸۴۴ھ کو دونوں کو لاہور سے بھاگتے ہوئے قتل کردیا (نقوش صفحہ ۱۲۰، لاہور نمبر) یہ واقعہ سکھوں کی تاریخ میں بڑا اہم واقعہ ہے، جسے نظام شاہ مجذوب نے پرانی صفیں الٹ دو سے ظاہر کیا تھا (مترجم)]
راقم الحروف (مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ) اپنا چشم دید واقعہ پیش کرتا ہے مجھے ایک بار غسل کی حاجت تھی، صبح صبح گھر سے اٹھا، کتاب ہاتھ میں لی، اور اپنے استاد مولوی غلام اللہ صاحب کے پاس مسجد موراں میں جا پہنچا میرا ارادہ تھا کہ وہاں میں غسل کرلوں گا اور وہاں ہی نماز فجر ادا کرلوں گا اور نماز کے بعد سبق پڑھوں گا میں مسجد میں پہنچا میں نے دیکھا کہ حضرت نظام شاہ نماز فجر سے قبل ہی چراغ کی روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہے ہیں، میں آگے بڑھا حضرت استاد مکرم کو سلام کرنا چاہا اور پھر غسل خانہ کی طرف جاؤں گا میں استاد کے سامنے حاضر ہوا، سلام علیکم عرض کیا، نظام شاہ اپنی جگہ سے اٹھا میری گردن پر ایک گھونسہ مارا اور چلا کر کہا بے ادب غسل کی حالت میں مسجد میں آئے ہو، اور اپنے استاد کو سلام بھی کر رہے ہو، میں نے استاد کے سامنے ہی توبہ کی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور وہاں سے سیدھا غسل خانے کی طرف چلا گیا غسل کے بعد نماز ادا کی استاد کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا، نظام شاہ دوبارہ میرے پاس آیا اور فرمایا یہاں میری گستاخی سے ناراض اور شکستہ دل نہ ہونا میں بے اختیار تھا میں نے عرض کی میں نے غلطی کی سزا پالی ہے اور صحیح تھی اس میں آپ تو قصوروار نہیں ہیں۔
جب انگریزوں کی عملداری آئی تو ان دنوں نظام شاہ میانی شریف لاہور کے قبرستان میں قیام پذیر تھے اور قبرستان میں ہی اپنے لیے ایک کمرہ بنالیا تھا، ایک لکڑی کی زنجیر جسے کاٹھ کہتے ہیں تیار کی ایک دن ایک جوگی جو لاہور میں گدا گری کرتا تھا پکڑا اور اس کاٹھ میں جکڑ دیا اس طرح جو بھی حالتِ مستی میں آپ کے ڈیرے پر جاتا اسے کاٹھ ماردیتے یہ جوگی سارا دن جکڑا رہا آزاد ہوا تو اس نے انگریزی عدالت میں آپ کے خلاف حبس بے جا کا مقدمہ کردیا، لاہور کے حاکم (ڈپٹی کمشنر) نے شہر کے کوتوال خدا بخش کو حکم دیا کہ نظام شاہ کو پیش کیا جائے تاکہ وہ جو اب دعویٰ پیش کریں خدا بخش خود حاضر ہوا کہ بندہ آپ کا عقیدت مند ہے مگر حکم حاکم کے پیش نظر آپ کو عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہے، آپ نے فرمایا: بابا ہم ان ظاہری حکمرانوں کی عدالت میں حاضری دینے سے معذور ہیں، ہم تو اپنے احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہونا جانتے ہیں اگر آج اس عادلِ حقیقی نے اپنے ہاں نہ بلایا توکل آپ لوگوں کو اختیار ہوگا بلکہ ہم برضا و رغبت آپ کے ساتھ چلیں گے کوتوال چلا گیا اُسے یقین تھا کہ نظام شاہ جھوٹ نہیں کہتے دوسرے دن آکر لے جاؤں گا دوسری صح شہر میں یہ خبر عام ہوگئی کہ نظام شاہ فوت ہوگئے ہیں ایک بے پناہ ہجوم خلق آپ کے جنازہ میں شریک ہوا اور میانی کے قبرستان میں ہی دفن کردیے گئے۔
آپ کی وفات ۱۲۶۹ھ میں ہوئی تھی۔
عاشق حق نظام شاہ جہاں |
|
چوں برفت از جہاں بحق پیوست |
(حدائق الاصفیاء)