فسحم دخترِ اوس بن خولی بن عبداللہ بن حارث انصاریہ از بنو حبلی ،بقولِ ابن حبیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
فضتہ النوبیہ،خاتونِ جنت کی کنیز تھیں،ابو موسیٰ نے کتابتہً ابوالفضل جعفر بن عبدالواحد ثقفی سے ، انہوں نے ابوعثمان اسماعیل بن عبدالرحمٰن صابونی سے
اجازۃً،انہوں نے ابوعثمان اسماعیل بن عبداللہ بن عبدالوہاب خوارزمی سے (جو احنف بن قیس کے عمزاد تھے)شوال دوسواٹھاون ہجری میں (ح) ابو عثمان نے ابوالقاسم الحسن
بن محمد حافظ سے،انہوں نے ابو عبداللہ محمد بن علی نبسا سے، انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے عبداللہ بن عبدالوہاب خوارزمی سے،انہوں نے احمد بن حماد مروزی
سے،انہوں نے محبوب بن حمید بصری سے(اور اس حدیث کے بارے میں روح بن عبادہ نے ان سے دریافت کیا)انہوں نے قاسم بن بہرام سے انہوں نے لیث سے،انہوں نے مجاہد سے،
انہوں نے ابن عباس سے،قرآ ن کی اس آیت عَلٰی یوفون باالنذرویخافون یوماً کانَ شَرُّہٗ مستطیراویطعمون الطعام علٰی حبہِ مسکیناً ویتیماواسیرا اس کے بارے میں
دریافت کیا،توانہوں نے جواب دیا۔
کہ ایک بار حضرت حسن اور حسین دونوں بیمار ہو گئے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی عیادت کو تشریف لائے،اورعام لوگ بھی ان کی عادت کو آئے،لوگوں نے
حضرت علی سے کہا، اے ابوالحسن ان بچوں کی صحت کے لئے کچھ نذر مان لو،حضرت علی نے نذر مانی،کہ اگر یہ بچے اس بیماری سے صحت یاب ہوگئے تو شکرانے کے تین روزے رکھوں
گا،خاتونِ جنت اوران کی کنیز نوبیہ نے بھی یہی نذر مانی،بچے دونوں تندرست ہوگئے لیکن گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا،حضرت علی شمعون خیبری سے تین صاع جو ادھار پر
لے آئے،اور خاتونِ جنت کے حوالے کئے،انہوں نے غلّہ پیسا اور آٹا گوندھ کر روٹی پکائی،اتنے میں حضرت علی بھی نماز پڑھ کر آگئے،اور خاتونِ جنت نے کھانا پکا کر
ان کے سامنے رکھا ہی تھا،کہ دروازے پر دستک ہوئی او ایک شخص نے آواز دی،اے آلِ محمد!میں مسکین ہوں اور مسلمان،مجھے کھانا کھلاؤ،خدا تمہیں اس کا بدلہ دے ،کھانا
اٹھا کراسے دے دیاگیا،اور سارا خاندان دن رات بھوکا رہا،اور سوائے پانی کے اور کوئی چیز ان کے پیٹ میں نہ گئی، دوسرے دن خاتونِ جنت نے غلہ پیس کر کھانا پکاکرپھر
تیار کیا،تودروازے پر دستک پھرہوئی،اور ایک شخص نے سوال کیا ،اے آلِ محمد !میں یتیم ہوں اور بھوکا ہوں،مجھے کھانا کھلاؤ،اللہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا،حسب سابق
آج کا کھانابھی سوالی کو مل گیا،اور سارے خاندان کو دوسرادن بھی اسی طرح بغیر کچھ کھائے گزارنا پڑا،تیسرے دن بھی پھر وہی صورت پیش آئی،دستک دینے والا ایک قیدی
تھا،چنانچہ اس دن کا کھان وہ لے اُڑا،اور سارا خاندان تیسرے دن بھی بوکا رہا،اتفاق سے حضور تشریف لائے اور گھربھر کی حالت دیکھی تو سورۂ دہر کی ابتدائی آیات
اتریں، لَانُرِیدُ مِنکُم جَزاءًوَّلَاشُکُوراً ،نہ توہم تم سے جزاکی خواہش رکھتے ہیں اور نہ شکرکی،ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔