حضرت مولانا الحاج غلام مجدد سر ہندی ابن حضرت مولانا عبد الحکیم ابن حضرت عبد الرحیم مجددی سر ہندی (قدست اسرارہم ) ۱۳۰۱ھ؍۱۸۸۳ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلۂ نسب ۱۰ واسطون سے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ تک پہنچتا ہے ۔تحصیل علوم کے بعد علی برادرن کے ساتھ دو سال جیل میں رہے ، اسی دوران قرآن پاک کے پندرہ پارے حفظ کرلئے۔
آپ کڑ مسلم لیگی منجھے ہوئے سیاست دان ، شعلہ بیان خطیب اور سرور دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے محب تھے، تحریک پاکستان کے سلسلے میں فجا ہموار کرنے کے لئے دھواں دار تقریر یں کیں اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے شب و روز کام کیا ۔ نواب زادہ لیاقت علی خاں او سردار عبد الرب نشتر آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔
حق گوئی،بے باکی ، مہمان نوازی اور خود داری آپ کے نمایاں اوصاف تھے با وجود یکہ آپ ہندوئوں کے سخت مخالف تھے ،ہندو آپ کا دلی طور احترام کرتے تھے چنانچہ قیام پاکستان کے بعد کئی ہندو جاتے ہوئے اپنے مکانات آپ کے حوالے کر گئے جو آپ نے مہاجرین کے حوالے کر دئے البتہ دیوان ولی رام کے بنگلہ واقع ہیرا آباد ، حیدر آباد میں آپ نے رہائش اختیار کرلی، کچھ عرصہ ککڑ حیدر آباد نے یہ کہہ کر آپ سے بنگلہ خالی کرالیا کہ یہ آپ کی ضرورت سے زائد ہے ۔ چیف منسٹر سندھ کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اگر مولانا غلام مجدد مجھ سے میں تو میں انہیں بنگلہ واپس دلادوں گا، آپ نے شان بے نیازی سے فرمایا:۔
’’میرے لئے بنگلے کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ، میں اس کے پا س نہیں جائونگا ۔‘‘
یہ بات خان لیاقت علی خان کو بھی پہنچ گئی،انہوں نے معذرت کے ساتھ بنگلہ آپ کو واپس کردیا اور ککڑ صاحب پر نراضگی کا اظہار کیا ۔
اپریل ۱۳۷۶؍۱۹۵۷ء کو مجسمۂ علم و فضل ، پیکر زہد و تقویٰ ، میدان شجاعت و نصاحب کا شہسوار ،تحریک پاکستان کی صف اول کا مجاہد دنیا سے رخصت ہو گیا جنہیں ایک دنیا غلام مجد د کے نام سے یادکر تی تھی(رحمہ اللہ تعالیٰ ) مٹیاری ضلع حیدر آباد میں آپ کا مزار شریف ہے۔
مولانا گلام رسول جان سر ہندی درویش منش بزرگ آپ کے فرزند اجمند ہیں[1]
[1] مکتوب مولانا پیر محمد اسحاق جان سر ہندی مدظلہ ،(میر پور ، سندھ) بنام راقم الحروف ، ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)