حافظ غلام محمود چشتی نظامی
حافظ غلام محمود چشتی نظامی (تذکرہ / سوانح)
حافظ غلام محمود چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حافظ غلام محمود چشتی نظامی۔لقب: حافظ جی۔والد کااسم گرامی: گوہردین علیہ الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت با سعادت1314ھ،مطابق 1923ءکوضلع اٹک پنجاب میں ہوئی۔
عطائے محمود: آپ کے والد گرامی کےبڑے صاحبزادے کی ولادت کےتیرہ سال بعدتک کوئی اولاد نہیں ہوئی۔بالآخر آپ کےوالد صاحب اپنے مرشد حضرت خواجہ محمود تونسوی (سجادہ نشین حضرت پیر پٹھان علیہ الرحمہ)کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اولاد کے حصول کےلئے دعا کی درخواست فرمائی۔حضرت خواجہ صاحب نے دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’تمھارے ہاں لڑکا پیدا ہوگا،اگر اس کے دائیں بازو پر انگوٹھے کا نشان ہوتو یہ سمجھنا کہ تمھارے پیر ومرشد نےخدا سے دلوایا ہے،اور اس کا نام میرےنام پر ’’محمود‘‘رکھنا۔چنانچہ جب آپ کی پیدائش مبارکہ ہوئی تو آپ کےسیدھے بازوپر انگوٹھے کانشان تھا،یہ انگوٹھے کانشان آپ کےوصال تک رہا،کبھی کبھی محفلِ میلاد میں آئے حضرات کواس کی زیارت کراتےتھے،خواجہ محمود صاحب علیہ الرحمہ کےنام پر آپ کا نام ’غلام محمود‘ رکھاگیا‘‘۔(بشر ی المسعود فی رؤیاتِ حافظ غلام محمود:62)
تحصیلِ علم: بچپن میں ہی حصولِ علم کا بہت زیادہ شوق تھا۔مولانا حافظ نواب الدین علیہ الرحمہ جوایک باعمل عالم دین اور مکھڈ شریف میں مدرس تھے۔ان سےقرآن مجید حفظ کیا۔ابتدائی دینی تعلیم بھی انہیں سے حاصل کی۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت پیر زین الدین چشتی علیہ الرحمہ (ترگ شریف ضلع میانوالی)(خلیفہ حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی علیہ الرحمہ) سے بیعت ہوئے ،اور ان کے صاحبزادے خواجہ غلام معین الدین چشتی نظامی سے خلافت پائی۔
سیرت وخصائص: قطبِ زماں،محبوب صاحبِ کون ومکاں،ہادیِ ناقصاں،حاضر بارگاہِ رسالت ہرآن،شاہد صاحبِ فرقان،مخدومِ جہاں،صاحبِ اوصافِ کثیرہ وحمیدہ،شیخِ طریقت،عاملِ شریعت،عاشق رسول ﷺ،حضرت حافظ غلام محمود رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ان بزرگان دینِِ اور اولیائے کاملین میں سے ہوئے ہیں،جو مدتِ مدید کے بعد پیداہوتےہیں۔جن کی نگاہِ بصیرت باریک سے باریک حقیقت کو دیکھتی ہے،اور جن کے قلوب انوارِ سبحانیہ کےمعدن اور اسرار ربانیہ کے مخزن ہوتے ہیں۔وہ ایک طرف اپنا تعلق محبوبِ حقیقی سےاستوار رکھتے ہیں،تو دوسری طرف نوع انسانی کی ہدایت ورہنمائی کےلئےپیش پیش رہتے ہیں۔ان کا وجود اسلام اور بانیِ اسلام کے غیر فانی کمالات کا نمونہ اور ان کا خلق اخلاقِ خداوندی کا نمونہ ہوتا ہے۔
حضرت حافظ جی سرکار علیہ الرحمہ کی عبادت وریاضت کا یہ عالم تھا کہ حالتِ شباب میں 20سال تک نماز عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا کی،قرآن پاک سے آپ کو قلبی لگاؤ تھا۔آپ نماز عشاء سے فجر تک عبادت وریاضت میں مشغول رہتے،اور بیس سال تک ایک وضو میں مکمل قرآن مجید ختم فرماتے،آپ کو طیِ لسانی حاصل تھا،صرف ساڑھے تین گھنٹوں میں قرآن مجید مکمل ختم فرمالیتے تھے۔اسی طرح ایام منہیہ کے علاوہ سارا سال روزے رکھنے کامعمول تھا۔ترکِ دنیا کی ایسی عادت کہ تمام عمر کرائے کے مکان میں بسر کی،بڑے بڑے لوگ آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے،لیکن علماء کرام وسادات ومشائخ عظام کاایسا ادب کرتےتھے کہ جس کی مثال فی زمانہ بہت مشکل ہے۔عاجزی وانکساری آپ کا نشانِ امتیاز تھا۔مخلوقِ خدا کا جم غفیر آپ کی خدمت میں موجود رہتا،جوافسردہ آتا،مسکراتا ہوا واپس جاتا،سینکڑوں لاعلاج مریضوں کو آپ کے درسے شفاء ملی،آپ علیہ الرحمہ نےاپنے آپ کو مخلوقِ خدا کی خدمت میں وقف کیا ہوا تھا۔حافظ جی کا زیادہ تر وقت چونکہ قرآن مجید کی تلاوت میں گزرتا تھا اور وہ کبھی کبھی ایک وضو سے ایک قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ لہذا قرآن مجید ان کے قلب سے جاری ہو گیا تھا اور بعض اوقات آپ خاموش ہوتےیا سو رہے ہوتے، تو آپ کو اپنے وجود سے قرآن مجید کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی تھی۔
حضرت حافظ غلام محمود چشتی نظامی علیہ الرحمہ پر اللہ جل شانہ اور اس کے حبیب پاکﷺ کا خاص کرم اور فضل تھا،انہوں نے حالتِ بیداری اور خواب میں سینکڑوں مرتبہ سرکار دوعالم ﷺکی زیارت مبارکہ سے بہرہ ور ہوئے،آپ کوکشف میں کمال حاصل تھا،کئی اکابرین اولیاء اللہ تعالیٰ،اور صحابہ کرام سےروحانی طور پر اور بیداری کے عالم میں ملاقاتیں ہوئیں،جس مزار پر تشریف لےجاتے آپ اس سےملاقات کرکے واپس آتے،اپناکام ان سے حل کرواتے،بلکہ کبھی کبھی تو اکابرین اولیاء آپ خاص کرم فرماتے،اپنے مزار پر ملاقات کی دعوت ارشاد فرماتے،ایک مرتبہ آپ نےارشاد فرمایا کہ حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ مدت سے مجھے فرمارہےہیں،کہ حافظ جی میرے پاس کیوں نہیں آتے،پھر جب میں مزار شریف پر گیااور مین جنوبی گیٹ سےداخل ہوا تو دیکھاکہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی چلہ گاہ کےپاس ایک ستون کےساتھ حضرت داتاصاحب علیہ الرحمہ کھڑے میرا انتظار فرمارہےتھے۔اسی طرح ایک مرتبہ حضرت لعل شہباز قلندر علیہ الرحمہ اسٹیشن سے آپ کومزار تک لےگئے۔(البشری المسعود:113/119)
ایک مرتبہ خواب میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم فرمایا کہ حافظ جی آپ بیعت کیا کریں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حکم دیا کہ حافظ جی کی دستار بندی کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کی دستار بندی کی پھر کوئی غیبی آواز آئی کہ آپ ظاہری طور پر بھی کسی سے دستار بندی کروالیں اور چند بزرگوں کے نام لیے گئے مگر حافظ جی نے منع کر دیا۔ پھر جب آپ کے پیر زادہ خواجہ غلام معین الدین چشتی نظامی کا نام لیا گیا تو آپ نے حامی بھر لی۔ پھر ظاہری طور پر آپ کی دستار بندی مسجد فیض محمدی (گلشن اقبال بلاک 13-D، کراچی) میں کی گئی۔ جب سے وصال تک بیعت کا سلسلہ جاری رہا۔
رسول اکرمﷺ نے آپ کو میلاد کرنے کاحکم دیا اور فرمایا ”جسے میں چاہوں گا، وہ آئے گا“ اور انتظامات کے حوالے سے فرمایا کہ ”ہم کوئی وسیلہ بنا دیں گے“ اور جب سے اب تک ہر اتوار کو بعد نماز مغرب میلاد کا سلسلہ جاری ہے۔ایک مرتبہ 2002ء میں میلاد کے دوران حافظ جی دروازے پر تشریف لے گئے۔ پھر واپس آکر فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ تشریف لائے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حاضرین محفل کو بھی زیارت کروائیں لیکن آپﷺ نے زیارت عام سے منع فرما دیا۔ایک مرتبہ فرمایا جہاں میں جاؤں گا وہیں میلاد بھی جائےگا۔ایساہی ہوا اب بھی ہفتے میں آپ کےمزار شریف پر دومرتبہ جمعرات اور اتوار کومحفلِ میلاد ہوتی ہے۔
شب براءت 2003ء کو رات بھر آپ کے مزار شریف پر محفل نعت جاری رہی اور صرف آپ کے مرقد پر رات دس بجے سے صبح فجر تک ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی، جو ارد گرد کہیں نہیں تھی۔ جب کہ ایک نعت خواں نے حافظ جی کو اپنے برابر میں نعت سنتے ہوئے دیکھا۔ جب اس نے ارادہ کیا کہ محفل کے اختتام پر ان ہی بزرگ سے دعا کروائیں گے تو وہ غائب ہو گئے۔(بحوالہ : ”روشن دریچے“ ص 375-374)
الحمد للہ یہ فقیر آپ کےپڑوس سیکٹر 5/Gنیو کراچی میں مقیم ہے،اور آپ کےآستانہ عالیہ پر حاضر ہوکرسکون محسوس کرتاہے،اور آپ کاسلسلہ طریقت حضرت پیر پٹھان خواجہ شاہ سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ سے ہے،اور میرا وطن اصلی تونسہ شریف ہے۔اس لئے بھی آپ سے قلبی عقیدت ہے۔اللہ جل شانہ آپ کےوسیلے سےدعا قبول فرماتا ہے۔آپ کے رؤیاتِ صادقہ اور مناقب ِ جلیلہ کےلئے’’البشری المسعود فی رؤیاتِ سیدی حافظ غلام محمود‘‘ مؤلفہ حضرت مفتی محمد رفیق الحسنی مدظلہ کامطالعہ نہایت مفید ہے۔(محمد رمضان تونسوی غفرلہ)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 12/جمادی الاول1424ھ،مطابق 13/جولائی 2003ء،بوقت سواتین بجے،تہجد کےلئےغسل فرمایا،اسی پاکیزہ حالت میں دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کی نماز جنازہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں اداکی گئی۔آپ کامزار پر انوار سیکٹر1-11عقب تھانہ نیو کراچی میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: البشری المسعود۔روشن دریچے۔