حضرت مولانا حافظ محمد اسحاق بن ۔۔۔۔۔۔۔۱۹۱۷ء کو دہلی (انڈیا) کے مشہور محلہ پہاڑ گنج میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے دہلی ہی سے تعلیم کا آغاز فرمایا سب سے پہلے قرآن حکیم حفظ کیا اس کے بعد حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ اپنے استاد کے چہیتے شاگرد تھے۔
بیعت :
آجپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی ثم کراچی سے دست بیعت ہوئے۔
شادی و اولاد:
ایک شادی کی جس سے اولاد نہیں ہوئی ۔ بیوی ہمیشہ بیمار رہتی جس کی تیمارداری کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیئے۔ ایک بار فرمایا: اس عمر میں ہمیں خدمت کی ضرورت ہے لیکن بیوی کے بیمار ہونے کے سبب ہمیں ان کی خدمت کرنی ہوتی ہے ، شاید قدرت ہمارا امتحان لے رہی ہے۔ ( بروایت شہزاد احمد )
پاکستان آمد :
قیام پاکستان کے بعد اپنے استاد محترم و مرشد کریم قاضی زین العابدین کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور انہیں کے ساتھ کراچی میں رہے۔ لیکن بعد میں حیدر آباد ( سندھ ) تشریف لائے اور مستقل رہائش اختیار کی۔
امامت و خطابت:
حیدرآباد میں تقریبا پچپن (۵۵) سال خطابت و امامت اور تدریس کے ذریعہ اسلام و سنیت کی خدمت کی۔ حیدرآباد میں نماز جمعہ آپ کی مسجد میں تمام مساجد سے تاخیر میں ہوتی تھی۔ اگر حیدر آباد کی تمام مساجد سے نماز جمعہ نکل جائے لیکن آپ کے ہاں مل جاتی تھی اس حوالے سے بھی شہر میں شہرت رکھتے تھے۔
تعمیر مسجد :
آپ نے اپنے وقت کے گورنر سندھ میر رسول بخش ٹالپور مرحوم کے تعاون سے حیدرآباد شہر میں ہوم اسٹیڈ ہال پر ’’جامع مسجد اسحاق ‘‘ کی بنیاد رکھی اور بڑے جوش و جذبہ سے اپنی جیب خاص سے تعمیری مراحل طے کئے۔ اور اسی مسجد میں زندگی بھر تک خطابت و امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مسجد شریف کے متصل مدرسہ بھی قائم کیا جہاں حفظ و ناظرہ کے علاوہ دینی تعلیم کا بھی اہتمام تھا۔ جہاں علاقہ کے بے شمار بچے اور بچیوں نے تعلیم حاصل کی۔ آپ مدرسہ و مسجد میں خدمت بلا معاوضہ ادا کرتے تھے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی گذرا وقات کے لئے برتنوں کی دوکان چلاتے تھے، جس کی آمدنی تعمیر مسجد پر بھی خرچ فرماتے تھے۔ ایسی خلوص وللہیت کی ہستیاں آج کہاں ہیں ؟ آج تو قحط الرجال کا دور ہے۔
وصال:
مولانا محمد اسحاق نقشبندی نے ۲۸ ، شعبان المعظم ۱۴۱۷ھ بمطابق جنوری ۱۹۹۷ء ۷۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ قبرستان حیدرآباد ( سندھ ) میں تدفین عمل میں آئی ۔
[سید منیر احمد شاہ ( حیدرآباد ) کے توسل سے حافظ مطلوب احمد چشتی ( حیدرآباد ) سے رابطہ ہوا اور انہیں اور دیگر احباب کو تفصیلی حالات کے لئے بار بار متوجہ کیا لیکن کسی نے بھی توجہ نہیں دی چشتی صاحب نے نہایت مختصرمضمون مہیا کیا اس میں اس میں دیگر روایات کو شامل کر کے مضمون ترتیب دیا گیا ہے۔ فقیر دونوں حضرات کا ممنون ہے ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)