صاحب تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں کہ آپ حضرت ملا شاہ قادری (جو حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ تھے) کے مرید ہوئے، مگر حضرت ملا شاہ سے آپ کو روحانی دولت نصیب نہ ہوئی بے اعتقاد ہوکر گلے میں زنار ڈالا منہ کالا کرلیا، اور قلندروں کی ایک جماعت میں جاملے، آزادانہ ان کے ساتھ شہر بہ شہر پھرتے رہتے اسی دوران حضرت نوشہ گنج بخش کے دروازے پر گداگر کی حیثیت سے جا پہنچے حضرت نوشہ قدس سرہ نے تمام قلندروں کو غلہ عنایت فرمایا مگر حافظ طاہر کو کچھ نہ دیا قلندر روانہ ہوئے تو حافظ طاہر مایوس اٹھے اور دل سے پُر درد آہ کھینچی، حضرت نوشہ اس قلبی کیفیت سے واقف تھے آواز دی، طاہر تم کہاں جا رہے ہو؟ ہمارے پاس آؤ، حافظ طاہر نے آپ کی زبان سے اپنا نام سنا، تو حیرت زدہ ہوگئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت نوشہ نے اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ اٹھو! اور اس شخص کے پیراہن کے نیچے سے زنار اتار لو زنار اتار لیا اور اسے توڑ کر حافظ طاہر کو اپنا مرید بنالیا اس شہنشاہ روحانیت کی ایک نگاہ سے حافظ طاہر کئی منازل طے کرگئے تکمیل حاصل کی آپ کا جذب و استغراق اس وجہ سے ہوا کہ صحراء و بیابان میں مارے مارے پھرتے ننگے پاؤں اور پھر ستر ضروری کے مطابق کپڑا پہنتے کرامات کا ظہور ہونے لگا، آپ کی وفات ۱۱۳۶ھ میں ہوئی۔
زین جہاں فنا بخلد بریں سالِ تاریخ رحلتش سرور
|
|
رفت افسوس طاہر مجذوب گفت قدوس طاہر مجذوب
|
(حدائق الاصفیاء)