حاجی الحرمین میاں نواب علی رحمتہ اللہ علیہ
حاجی الحرمین میاں نواب علی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ میاں میراں بخش بن سلطان بالانوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند ارجمنداور سجادہ نشین تھے۔ بیعت طریقت آپ کی سید اکرم الٰہی بن سیّد حیدر شاہ ہاشمی رنملوی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔
اس سے اُوپر شجرہ میاں غلام مصطفےٰ نوشہروی کے ذکرمیں لکھاجاچکاہے۔
اذکار واعمال
آپ صاحب علم و عمل تھے۔شریعت کے پابند ۔تلاوت قرآن مجید بلاناغہ کیا کرتے۔نماز باجماعت پڑھنے کی کو شش کرتے۔علم دوست تھے۔علمأ و فضلاکے ساتھ محبت رکھتے ۔ عُرس شریف کے موقعہ پرضروروعظ کروایاکرتے۔
حج وزیارات
آپ نے حرمین الشریفین میں جاکر فریضہ حج اداکیااور زیارات مقامات مقدسہ بغداد شریف۔کربلائے معلّےٰ۔نجف اشرف سے بھی مشرف ہوئے۔
استقامت
ایک مرتبہ عرس شریف کے موقعہ پررات کو طواف کے بعد درگاہِ سچیاریہ کے پاس آتش بازی کا اکھاڑہ لگا۔قدرت الٰہی سے ایک ہوائی جہاز کاچکرچھوٹ کر خلائق کے ہجوم میں داخل ہوگیا۔خلقت ہرطرف بھاگنے لگی۔میں نے دیکھاکہ آپ بالکل استقامت سے بیٹھے رہے۔حالانکہ آپ کے اِرد گردکئی دفعہ چکرپھرا۔لیکن آپ نے اپنی جگہ سے بالکل جنبش نہ کی۔باقی پیرزادگان اورمریدان سب جان بچاکر رفو چکر ہوگئے۔
اپنے خاندان پر احسان
آپ خود بیان کیاکرتے تھے۔کہ ہمارے خاندان نوشہرویہ کی قومیّت کاغذات مال گورنمنٹ برطانیہ میں"فقیر نوشاہی"یا"میانہ"درج تھی۔میں نے عدالت میں چارہ جوئی کرکےاورنہایت کوشش سے اپنی قوم گکھڑ راجپوت لکھاجاتاہےاورزراعت پیشہ اقوام میں شمارہوتاہے۔
اشاعت کتب
آپ کو کتابوں کی اور خاندان کی اشاعت کابہت شوق تھا۔
۱۔رسالۂ زمزمہ نوشاہی ۔قاضی غلام جیلانی قادری ساکن دڑوہ سے تالیف کراکےشائع کیا۔
۲۔رسالہ القادرنوشاہی۔اپنی سرپرستی میں مولوی حامد شاہ گمٹالوی کی ادارت میں گمٹالہ ضلع گورداسپور سے ماہوار شائع کرایا۔جو چودہ نمبرتک جاری رہ کربند ہوگیا۔
۳۔گلزارنوشاہی۔مولوی محمد حیات شرقپوری سے تالیف کراکے شائع کرائی۔
تصانیف
آپ کو تصنیف کا شوق تو تھالیکن اس قد ر علمیّت نہ رکھتے تھے۔کہ کتاب جمع کر سکیں ۔اس لیے دو کتابیں مجھ سے (سیّد شرافت سے) مرتب کروائیں۔
۱۔اذکارالابرار۔اس میں حضرت سچیارصاحب کے اور ان کی اولاد و خلفأ کے حالات درج کئے۔ لیکن اشاعت سے پہلے ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔
اب ۱۳۷۶ھ میں فقرائے بدّو ملہی نے باجازت صاحبزادہ محمد اسلم چھپوادی ہے۔لیکن افسوس کہ انہوں نے میرانام اُس میں سےنکال دیاہے۔اِسی خدشہ سے میں نے بصنعتِ نسب نامہ لکھ دیاتھا۔ وہ سب نام اُسی طرح موجود ہیں۔شائع کرنے والے نے نہ اس صنعت کو سمجھااور نہ وہ نام نکال سکے۔
جب تک یہ کتاب موجود رہے گی۔پتہ چلتارہےگاکہ اس کامرتب و مؤلف کون تھا۔
۲۔زینتہ الاوراق۔آپ نے زیاراتِ مقاماتِ مقدسہ عراق کا سفرنامہ بطور روزنامچہ لکھاتھا۔یہ آپ کی وفات سے کئی سال بعد مجھے ضلع لائل پور کے ایک دوست سے دستیاب ہوا۔وہ میں نے مرتب کرکے بطوررسالہ جمع کرکے اس کانام زینتہ الاوراق درسفرنامہ عراق رکھ دیاہے۔
مکتوبات
میں نے جب اپنی کتاب شریف التواریخ کی تالیف کوشروع کیا۔توآپ کو بھی مطلع کیااور آپ سے آپ کے بزرگوں کے حالات طلب کئے۔آپ نے مندرجہ ذیل دو مکتوب جواباً تحریر کئےاور کتاب کے متعلق خوشی کا اظہار کیا۔وہ دونوں مکتوب نقل کئے جاتے ہیں۔
مکتوب اوّل
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریممسندآرائے شرافت ۔زیب فرمائے سعادت۔برگزیدہ مسند صداقت۔مصدرِ افعالِ حسنات معدنِ جودومکرمات۔رونق بخش بوستانِ خاندان عالیہ ۔باغبانِ گلستانِ قادریہ نوشاہیہ ملجائے وماوائے محترمی و شانِ ارادت منداںمد ظلکم العالی۔وجزاک اللّٰہ فی الدارین خیرا۔
بعداہدائے ہدیہ سنیہ السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہنامہ گرامی شرفِ صدورلایا۔ آپ کی اس سعی جمیل و کارِ خیر پر کمربندی کاشکریہ تہِ دل سے اداکیا۔آپ کو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب و محبوب وحضرات کرامِ مغفورومرحوم کی طفیل اس کوشش اور کارِ خیرمیں برکتِ موفورعطا فرمائے۔ اس نیاز مندسے جس قدرحتی الامکان ہوسکے گا۔فراہمی کتب و کرامات و تواریخ انتقال حضرات قلمبند کرکے ارسالِ خدمت کرنے میں نہیں دریغ نہیں ہو گا۔بلکہ اس امرخیر میں سعی سعادتِ دارین سمجھی جاوے گی۔واللّٰہ الموافق والمعین فی کل حین اٰمین ثم اٰمین۔
مصرعہ ایں کارازتوآید ومرداں چنیں کنند
الحمدللہ کہ جناب نے ازراہ ذرّہ پروری اِس فراموش کردہ کویاد سے شاد فرماکرمفتخر فرمایااور آج تک
چند افراد
دودشونداربدماغے رسند |
بادشوندار بچرائے رسند |
کی بیہودہ گوئی کی وجہ سے جو آپ نے نظر تلطف سے منوّر نہیں فرمایا۔ورنہ ہم جملہ نیازمنداں کا صدق دل سے وہی نیاز اور وہی غلامی اپناشعار ہے
قرارے کردہ ام باخود نہ پیچم سَرازیں درگاہ |
سَر اینجاسجدہ اینجابندگی اینجانیاز اینجا |
الٰہی قبول باد۔
میلہ شریف بالکل عنقریب ہے۔کاروبار میں مشغول ہوں۔اُمیدہے کہ کچھ دن آپ فراغت کے دیویں گے اوراُمید کہ آئندہ بھی اس نیازمند کویاد فرماتےرہاکریں گےوالسلام۔
بخدمت جملہ حضرات صاحبان سجدہ سلام قبول ہو۔برخوردارمحمد اسلم و شاہ بخش سے ازحد سجدہ سلام نیازقبول ہو۔ نیاز مندنواب علی نوشہروی یکم اگست ۱۹۲۸ء
مکتوب دوم
زیب مسندِ خلافت۔اشرف الشرفأ۔اسم بامسمّےٰ سلمکم اللّٰہ ظلکم ابدا۔السلام علیکمجناب نےدربارۂ دریافت حالات بزرگان خاندانِ والاشانِ عالی دربار فیض آثارحضرت پیر محمد سچیارغفراللّٰہ الغفار ۔نیاز مندکو افتخار بخشا۔زہے سعادت۔الحمداللہ
بالخصوص برادرم شاہ بخس سے بھی دستی حکمنامہ زیرمطالعہ گذرا۔بجواب حکم واجب التعمیل قلمی ہے کہ جو جوحالات اس نیازمند کونہایت کوشش اور سرگرمی سے پختہ سندات سے دریافت ہوئے ہیں۔ ان کا ایک مسودہ جو قریب التکمیل محبّانِ خاندان موضع شرقپور کے پاس ہےاورغالباً جناب نےبھی مشاراًالیہم کے پاس ملاحظہ فرمایاہوگاموجود ہے۔اب اگرحضور کے مسودہ میں گنجائش ہوتو تابعدار خود لاہور جاکر شرقپوروالوں سے نقل کراکے ارسال کردے گا۔یا خودبدولت منگالیں۔تواختیار باقی۔والسلام
مصرعہ ایں کاراز تو آئید ومرداں چنیں کنند
جواب باصواب سے تسکین بخشیں۔حاضرین مجلس صاحبزادگان سے السلام علیکم بخدمت حاضرین
دربار شریف تسلیم بصد تعظیم۔آپ کاتابعدار فقیر نواب علی سجادہ نشین دربار سچیار از نوشہرہ شریف
۲۰ اکتوبر ۱۹۲۹ء۔
مکتوب سوم
۱۳۴۹ھ کاواقعہ ہے کہ حضرات نوشہرویہ بمعہ اہل و عیال اورڈیرہ فقرا دربار شریف حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ پر حاضرہوئے۔وہاں میاں نواب علی رحمتہ اللہ علیہ نے صاحبزدگان ِ برخورداریہ کوکہاکہ آپ بھی نوشہرہ کے عُرس پر تشریف لایاکریں۔چنانچہ ۱۳۵۰ھ کے عُرس پر سب حضرات شمولیت کاارادہ کیا اوربمعہ ڈیرہ کے روانہ ہوکر کوٹ نِکّامیں پہنچے۔وہاں سے یہ رقعہ نوشہرہ میں آپ کی طرف بھیجا۔
۷۸۶
منجانب اولاد حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سکنائے ساہنپال شریف
بخدمت شریف
جناب میاں نواب علی سجادہ نشین و میاں محمد فاضل دام اقبالہما۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہہٗ۔مزاج شریف۔واضح رائے عالی ہو کہ پَرسال آپ نے دربارشریف حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں ہم کو مدعو کیاتھاکہ عرس نوشہرہ پرآیاکرو۔لہذا حسب وعدہ ہم بمعہ ڈیرہ فقراسازوسامان کے آئے ہیں۔آج ہمارامقام کوٹ نِکّا میں ہے۔رویت ہلال کے متعلق کچھ اختلاف ہواہے۔چونکہ ہم نووارد ہیں۔اس لیے ہم کو بذریعہ تحریر مطلع کیاجاوے کہ ہم کوکس دن عُرس پرآناچاہیئےآج یاکل ۔تقریباًپچیس صاحبزادگان بمعہ پچیس گھوڑیاں ہیں۔مکاں رہائش فراخ تجویز کیاجاوے۔جس مین سامان بحفاظت رکھاجاسکے۔سائبان دریاں وغیرہ اسباب کافی ہے۔برسات کاموسم ہےاس امرکو بھی مد نظر رکھاجاوے۔جواب جلدی۔ زیادہ دعا۔مورخہ ۲۰جولائی۱۹۳۱ء جب یہ رقعہ بدست ایک درویش کے نوشہرہ میں پہنچا۔ تو آپ نے یہ جواب لکھ بھیجا۔وہو ہذا
"مسجودِاولی الالباب۔مصدرِ افعالِ حسنات مولائی ملجائی ماوائی مدظلہم العالی۔
وعلیکم السلام۔مزاج معلّےٰ۔حکمِ گرامی سامی شرفِ صدور لایا۔سربفلک زہے سعادت و خہے قسمت۔ جواباًالتماس دائرہ دولتِ درویشاں ہے کہ آج چاند کی چوتھی تاریخ صاحبزادہ محمد شفیع دامادِصاحبزادہ محمد فاضل جوان عمر انتقال کرگیاہے۔جس کا صدمہ جُدائی اس وقت جوانی میں ہر ایک زن و بچہ خوردو کلان تک موثر ہے۔کہ عرس شریف میلہ وغیرہ یاد سےفراموش ہے۔موجودہ درویشاں کو بھی کل تک رخصت کردیاجائےگا۔کیونکہ اس وقت نازک میں برداشت اس قدر انبوہ عظیم کرنی ناممکن ہے اور باوجود فراہمی فقراوحالت تفکر و غم والم اس قدر آپ کا انتظام مشکل ہے۔دربارشریف میں جوبھی وعدہ کیاگیاتھا۔وہ صرف درویشانہ قاعدہ واحدکاکیاگیاتھا۔نہ کہ ایسے انبوہ میں ایک نوع آزمائش۔لہذامؤدبانہ عرض قابل منظوری ہے کہ اگرایک یادو صاحبزادگان تشریف لاکرافتخار بخشیں تو صرف شمولیت ختم عرس شریف ہوسکتی ہے۔بے ادبی معاف۔اس قدر برداشت ایسی حالت نازک میں ناممکن ونامناسب ہے۔رنج نہ فرماویں۔سادگی سے اصلیّت پر مبنی جواب دیا جاتاہے۔زیادہ آداب ۔حاضرین کی خدمت ۔بابرکت میں السلام علیکم۔خاکسار نواب علی و محمد فاضل ازنوشہرہ شریف سوموار ۴ ربیع الاوّل ۱۳۵۰ھ "۔
جب آپ کایہ خط آیا۔توسب صاحبزادگان نوشاہیہ برخورداریہ آپ کے ایساجواب دینے سے کبیدہ خاطر ہوگئےاورعُرس پر پہنچ کر درگاہِ سچیار صاحب کے مشرقی جانب عدالت گڑھ میں ڈیرہ کیااور
اپنے خورد و نوش کاسامان خود کرلیا۔
اولاد
آپ کے ایک ہی فرزند صاحبزادہ محمد اسلم ہیں جو ۱۳۴۹ھ میں علی عہد خلافت ہوئے اور آج کل آپ کے بعد گدی نشین ہیں۔اپنے آباؤاجداد کے فرائض عرس پر انجام دیتے ہیں۔ان کے دولڑکے ہوئے۔
اول صاحبزادہ محمد اختر۔یہ بچپن میں فوت ہوگیا۔
دوم صاحبزادہ غلام ربانی چن پیر ۔متولد ۱۳۵۸ھ ۔اب بعمر اٹھارہ سال موجود ہیں۔سلمہ اللہ تعالیٰ۔
تاریخ وفات
میاں نواب علی ۱؎کی وفات منگلوار ۔دسویں رمضان ۱۳۵۸ھ کوہوئی۔مزار گورستان ِ سچیاریہ میں اپنے والدصاحب کے پاس ہے۔
۱؎حضرت میاں نواب علی شاہ نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کامزید ذکرشریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے نویں حِصّہ فوائد الاذکارنام میں لکھاجائے گا۔شرافت۔
قطعہ تاریخ
ازمولوی محمدابراہیم قادری فاضلی نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ
حاجی الحرمین نواب علی غفراں پناہ |
رفت درجنت معلّےٰ بوداز رمضان دہ |
درعبادت درسخاوت درتلاوت یادِ حق |
روزوشب مشغول بودہ ذاکِر شام و بگاہ |
حامئے شرعِ مبین و صاحبِ علم الیقین |
زائرِ بغداد بودوحاجیِ حرمین واہ |
برصراطِ مستقیم آں نائبِ سچیاربود |
درشریعت درطریقت رہنماہادی راہ |
بیگماں سالِ وفاتِ حضرتِ عالیمقام |
یکہزارسہ صد وپنجاہ و ہشت آمد براہ |
یاالٰہی ابررحمت برمزارِ شاں بہار |
یامحمد اسلمش دادوکن از لطفش نگاہ |
مادۂ تاریخ "افتخار الدولہ"۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)