حلیمہ دختر ابو ذؤیب عبداللہ بن حارث بن شجنہ بن جابر بن رزام بن ناضرہ بن سعد بن بکر بن ہوازن،ابو عمر نے اس نسب کو اسی طرح نقل کیا ہے،اور ابو خثیمہ نے اس سے
اتفاق کیا ہے،لیکن ہشام بن کلبی اور ابن ہشام نے یوں بیان کیا ہے،شجنہ بن جابر بن رزام بن ناضرہ بن قصیہ بن نصر بن سعد بن بکر بن ہوازن،یہ سلسلہ اصح ہے،لیکن ابن
کلبی نے ابو ذؤیب کا نام حارث بن عبداللہ بن شجنہ لکھا ہے،اور بلاذری نے ان دونوں سے اتفاق کیا ہے۔
ابو جعفر نے باسنادہ تا یونس ابن اسحاق سے روایت کی کہ جب بعد از ولادت حضورِ اکرم کو اپنی والدہ کےسپر د کیا گیا،تو انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے
لئے دودھ پلائی کی تلاش شروع کردی اور آخر کار حلیمہ سعدیہ دستیاب ہو گئیں،ان سے عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب نے روایت کی۔
عبیداللہ بن احمد بغدادی نے باسنادہ یونس ے انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے جہم بن ابو جہم سے جو بنو تمیم کی ایک خاتون کے مولیٰ تھے،اور حارث بن حاطب کے پاس
تھے،اور جنہیں حارث کا مولیٰ کہتے،روایت کی کہ میں نے عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب سے سُنا،انہوں نے بیان کیا،کہ مجھے حلیمہ سعدیہ حضورِ اکرم کی دُودھ پلائی نے
بتایا ،کہ وہ بنو سعد بن بکر کی کچھ خواتین کی معیت میں مکے آئیں،قحط سالی تھی،ہم ایک دُبلی پتلی گدھی پر سوار تھے،جو چلنے سے لاچار تھی،میرے ساتھ ایک بچہ
تھا،اور ایک اونٹنی،بخدا ہم رات بھر سو نہ سکے،میرا بچہ میرے پاس تھا،اور میرے پستانوں میں دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا،اور نہ اونٹنی کے لئے چارہ تھا کہ اسے
کھلاتی،میں ان خواتین کے ساتھ مکے آئی،کوئی دُودھ پلائی ایسی نہ تھی،جس کے سامنے حضورِ اکرم کو پیش کیا گیا ہو،اور اس نے انکار نہ کیا ہو،کیونکہ آپ یتیم
تھے،اور ظاہر ہے کہ ایک بیوہ مان بچے کی دودھ پلائی کے ساتھ اتنی بھلائی تو نہیں کرسکتی جتنی کہ ایک باپ سے توقع رکھی جاتی،یہ عجیب اتفاق ہے،کہ سوائے میرےتمام
دودھ پلائیوں کو بچے مل گئے،میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہتی،اس لئے میں جاتی ہوں،اور اس یتیم بچے ہی کو لے آتی ہوں،شوہر نے کہا
جو تیری مرضی ہو ،کرلے،چنانچہ میں گئی اور حضور کو اُٹھا لائی ،ان کے آنے کی دیر تھی کہ میرے پستانوں میں دُودھ اتر آیا،اور میرے بیٹے نے خوب پیٹ بھر کر
پیا،میراشوہر اُونٹنی کی طرف گیا،تو اس کا ہَوانا بھی دُودھ سے بھراہواتھا، چنانچہ ہم نے اس کا دودھ دوہا،اور سَیر ہو کر پیا،میرے خاوند نے مجھ سے کہا،اے حلیم !
بخدا تُو نے بڑا مبارک بچہ حاصل کیا ہے۔
ابوالفضل بن ابوالحسن باسنادہ احمد بن علی بن مثنی سے،انہوں نے عمر و بن ضحاک بن محمد سے،انہوں نے حفص بن یحییٰ بن ثوبان سے روایت کی،کہ انہیں ابوالفضل نے بتایا
کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے،اور گوشت تقسیم فرمارہے تھے،میں اُن دنوں لڑکا تھا،اور اونٹ کا ایک عضو اٹھائے ہوئے تھا،کہ ایک بدو عورت آگئی،
اور آپ نے اپنی چادر بچھا کر اسے بٹھایا،میں نے پوچھا،یہ کون ہے،بتایاگیا،کہ حضور ِ سرورِ کائنات کی رضاعی والدہ ہے،اس کے شوہر کا نام حارث بن عبد العزی
ہے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔