ابو عبداللہ کنیت۔ حماد بن مسلم دیاس نام۔ دیاس دوشاب فروش کو کہتے ہیں اور دوشاب انگور یا کھجور کے شیرہ کو کہتے ہیں جو باسی اور ترش ہوچکا ہو۔ اسی اعتبار سے
اس کو دوش آب یعنی باسی کہا جاتا ہے۔ (نیز اس کے معنی ٹھنڈا پانی بیچنے والے کے بھی ہیں) اپنے زمانے کے پیرانِ کبار، عارفِ اسرار اور صاحبِ خوارق و کرامت میں سے
تھے۔ حضرت غوثِ اعظم کے پیر بھائی تھے۔ حضرت ثقلین اکثر آپ کی خدمت میں جاتے تھے اور فوائد عظیم حاصل کرتے تھے۔ اگرچہ اَن پڑھ تھے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم
لدنی عطا فرماکر دولتِ علم سے مالامال کردیا تھا۔ آپ کے کم و بیش بارہ ہزار مرید تھے۔ ایک روز فرمانے لگے میرے بارہ ہزار مرید ہیں اور ہر رات میں سب کو یاد کرتا
ہوں اور ان کی ضرورتون کو خدا سے طلب کرتا ہوں۔ ان میں سے اگر کوئی گناہ کے جرم میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کےلیے توبہ کی توفیق کی دعا مانگتا ہوں یا پھر اس کے لیے
جہان سے اٹھالینے کی درخواست کرتا ہُوں تا کہ تادیر گناہوں میں مبتلا نہ رہے۔
حضرت غوث الاعظم نے جب آپ کی زبان سے یہ سنا تو آپ کے دل میں یہ گزرا اگر حق تعالیٰ مجھے ایسی قربت و منزلت عطا فرمائے تو میں یہ درخواست کروں کہ میرے مریدوں
میں سے کوئی بھی تاقیامِ قیامت بغیر توبہ کے نہ مرے اور میں اس امر میں ان کا ضامن ہوں شیخ حماد کو نورِ باطن سے معلوم ہوگیا کہ جو کچھ عبدالقادر نے دعا کی اللہ
تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے۔ نقل ہے ادائل عمر میں حضرت غوثِ اعظم حماد کی مجلس وعظ میں حاظر ہوتے تھے ایک روز شیخ نے آپ کی طرف متوجہ ہوکر حاضرینِ مجلس سے
فرمایا کہ اس نوجوان عجمی کا قدم اپنے وقت کے تمام اولیا اللہ کی گردن پر ہوگا۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے عبدالقادر! کہو ’’قدمی ھذا علی
رقبۃ کل ولی اللہ۔‘‘ جب آپ نے یہ فرمایا تو تمام اولیائے وقت نے اپنی گردنیں جھکالیں۔ ماہِ رمضان ۵۳۱ھ یا ۵۳۵ھ میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخ وفات:
شیخ حماد پیرِ روشن دل
سالِ ترحیلِ ادست پیرِ طریق
۵۳۱ھ
|
|
بود در سترِ معرفت مستور
ہم رقم کن زہے مہِ پُر نور
۵۳۵ھ
|