حولأ عطارہ،ابو موسیٰ نے اجازۃً ابو علی محمد بن علی الکاتب اور حسن بن احمد سے،ان دونوں نے ابو منصور عبدالرزاق بن احمد سے انہوں نے ابو الشیخ عبداللہ بن محمد
سے ،انہوں نے محمد سے،انہوں نے اسحاق بن جمیل سے،انہوں نے اسحاق بن فیض سے،انہوں نے قاسم بن حکم سے،انہوں نے جریر بن ایوب البحلی سے،انہوں نے حماد بن ابو سلیمان
سے ،انہوں نے زیاد ثقفی سے،انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی،کہ مدینہ میں ایک عورت حولاء نامی تھی، اس نے حضرت عائشہ کو بتایا،کہ میں ہررات کو اپنے آپ کو
سنوارتی ہوں اور دلہن کی طرح سنگار کرتی ہوں اور شوہر کے لحاف میں گُھس جاتی ہوں،لیکن وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے،اس طرز عمل سے میں اتنی برا فروختہ ہوں کہ
میں اس کی شکل سے بیزار ہوں،حضرت عائشہ نے کہا،رسولِ کریم کے آنے تک انتظار کرو۔
اتنے میں آپ تشریف لے آئے،فرمایا مجھے حولا ءکی بُو آرہی ہے،تم نے اس سے کچھ خریدا تو نہیں،ہم نے عرض کیا،ہم نے کچھ نہیں خریدا،وہ تو اپنے خاوند کی شکایت
کرنے آئی ہے،حضور اکرم نے پوچھا ،تو خاتون نے بالتفصیل بات بیان کی،حضور نے فرمایا،حولاء جاؤ اپنے خاوند کی تابعداری کرو،اس نے کہا،یا رسول اللہ کیا مجھے اس کا
اجر ملے گا، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں میاں بیوی کے حقوق اور ایام حمل،ولادت اور دودھ پلانے کے اجر کا ذکر فرمایا،ابو موسٰی نے ذکر کیا ہے۔