حسانہ مزیتہ،ان کا نام جثامہ تھا،حضورِ اکرم نے حسامہ بنا دیا،یہ خاتون حضرت خدیجتہ الکبرٰی رضی اللہ عنہاکی دوست تھیں،حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلّم ان سے
مروّت سے پیش آتے تھے،اور اسے پاس داری عہد کا نام دیا کرتے ،جو اہلِ ایمان کی علامت ہے۔
ابن ابو ملیکہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک بڑھیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی،فرمایا،کون ہو؟ اس نے عرض
کیا،میں جثامہ مزینہ ہوں،فرمایا ،تم جثامہ نہیں،بلکہ حسانہ ہو، پھر بڑی توجہ اور مہربانی سے اس کی اور اہل خاندان کی خیریت دریافت کی،فرمایا ،کہ ہمارے بعد تمہیں
کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی،اس نےخیر و عافیت بیان کی اور چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے گزارش کی ،یا رسول اللہ!یہ بڑھیا کون تھی،جس میں آپ نے اتنی دل چسپی لی اور اتنی مہربانی اور شفقت کا اظہار کیا،حضورِ اکرم نے
فرمایا،یہ بڑھیا خدیجتہ الکبرٰی کی دوست تھی،اور اس سے ملنےاکثر آیاکرتی تھی،اور حسنِ عہد شرطِ ایمان ہے،ابو عمر اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔
بقولِ ابو عمریہ روایت اس سے جو خولِی دخترِ ثویب سے مذکور ہے ،بہتر ہے۔
ثابت نے انس سے روایت کی کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کو ئی تحفہ بھیجنے کا ارادہ فرماتے ،تو حکم دیتے ، کہ جاؤ فلاں چیز فلاں خاتون کو دے آؤ،کیوں کہ
وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی تھی،یاوہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیا ر کرتی تھی۔