حاتم بن اسمٰعیل [1]بلخی المعروف بحاتم اصم : مشائخ بلخ میں سے زاہد زمانہ عابد یگانہ معرض عن الدنیا و مقبل عقبیٰ ریاضت وورع وصدق واحتیاط میں بے بدل تھے حتٰی کےآپ کےحق میں شیخ جنید فرماتے تھے کہ آپ ہمارے زمانہ کے صدیق ہیں ۔ ابو عبد الرحمٰن کنیت تھی ۔ امام عبد الر حمٰن کنیت تھی ۔امام ابو حنیفہ کے اتباع میں سے تھے ۔آپ نے شریعت و طریقت کو شقیق بلخی اصحاب امام ابو یوسف سے حاصل کیا۔آپ کا قول ہےکہ جو شخص بغیر فقہ کے عبادت کرے وہ مثل خراس کے گدھے کے ہے، ایک دفعہ امام احمد نے آپ سے پوچھا کہ لوگوں سے کس طرح خلاصی ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تین چیزوں سے ایک یہ کہ ان کو چیز دے کر پھران سے طلب نہ کی جائے ، دوسرے ان کا حق ادا کرکے اپنا حق ان سے طلب نہ کیا جائے، تیسرے ان سے مکروہات کی تحمل کیا جائے اور خودکسی کو رنج نہ پہنچا یا جائے ۔ امام نے فرمایا کہ ان باتوں پر عمل کرنا بغیر توفیق الٰہی کے نہایت مشکل بلکہ محال ہے، تشدد نفس اور دقائق مکر نفس میں آپ کے کلمات عجیب ہیں اور تصانیف معتبر رکھتے ہیں ۔ تاریخ ابو الفداء میں لکھا ہےکہ آپ کا اصل میں بہرے نہیں تھے بلکہ اس لیے اصم سے ملقب ہوئے تھے کہ ایک روز ایک عورت آپ سےمسئلہ پوچھنے آئی تھی ،اتفاقاً اس سے ہوا سر گئی جس سے وہ نہایت شرسار ہوئی ۔آپ نے بایں خیال کہ یہ جان لے کہ انہوں نے آواز نہیں سنی ، اس سے فرمایا کہ اونچی بیان کر ، اس پر عورت یہ خیال کہ یہ جان لے کہ انہوں نے آواز نہیں سنی ، اس سے فرمایا کہ اونچی بیان کر،اس عورت یہ خیال کر کے کہ یہ بہرے ہیں اور انہوں نے میری ہوا سر ہونے کی آواز کو نہیں سُنا ،خوش ہوگئی اور آپ پریہ نام غالب آگیا۔وفات آپ کی ۲۳۷ھ میں ہوئی ،’’قبلۂ اہل دین ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے ۔
[1] ۔ حاتم عادانبن یوسف ترابد الاصم ، ابو محمد کنیت ’’جواہر الضیہ ‘‘(مرتب )
(حدائق الحنفیہ)