حواء ام بجید انصاریہ،یہ خاتون انصار میں اپنے شوہر سےپہلے اسلام لائیں،اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کی،ان کے خاوند کا نام قیس بن حطیم اور
والد کا نام یزید بن سکن بن کرزبن عورأ از بنو عبدالاشہل تھا،یہ ابو نعیم کا قول ہے کہ ایک روایت میں حواء دختر رافع بن امرأ القیس از بنو عبدالاشہل مذکور
ہے،ابو نعیم نے یہ سارا فلسفہ ابن اسحاق سے،انہوں نے عاصم بن عمرو بن قتادہ سے لیا ہے،ابو نعیم کی رائے میں یزید بن سکن کی بیٹی ام بجید ہے حالانکہ ام بجید وہ
خاتون ہیں،جو رافع کی بیٹی ہیں،ابن مندہ نے حواء دختر زہد نم سکن اشہلیہ کو قیس بن حطیم کی بیوی کہا ، جنہوں نے اسلام قبول کرکے ہجرت کی،اور اسی خاتون کو ام
بجید کہتے ہیں،ابن مندہ نے ایک دوسرا ترجمہ حواء دختر یزید بن سنان بن کرز بن زعوأ پر جو قیس بن حطیم کی بیوی تھی،لکھا ہے،تیسرا ترجمہ حواء انصاریہ پر لکھا
ہے،جو ابن بجید کی دادی تھی،اس طرح ابو عمر نے تین ترجمے لکھ دئیے ہیں،جن کے بارے میں مفصل بحث کریں گے۔
ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے ،انہوں نے ابوبجید سے ،انہوں نے اپنی دادی حواء سے روایت کی،کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُنا،کہ صبح کی
نماز میں اسفار کیا کرو،کہ اس میں زیادہ اجر ہے،اور اس حدیث کو ابوعمر اور ابونعیم نےاسی ترجمے میں بیان کیا ہے،اور اسی طرح ان دونوں نے اور ابن مندہ نے مالک سے
انہوں نے زید بن اسلم سے،انہوں نے عمروبن معاذ سے،انہوں نے دادی حواء سے انہوں نے رسولِ اکرم سے روایت کی، آپ نے فرمایا،سائل کے سوال کو رد مت کرو،اور کچھ نہ
ہوتو روٹی کا جلا ہواٹکڑا ہی دو،اس سے ابونعیم اور ابن مندہ نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے،کہ یہ دونوں خواتین ایک ہیں،لیکن ابوعمر کے نزدیک یہ صرف اختلاف فی الاسناد ہے
چنانچہ وہ کہتے ہیں،کہ انہوں نے اس اضطراب فی الاسناد کو کتاب التمہید میں بیان کردیا ہے،اور ابو عمر کا قول ہے ،کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں،جو اس خاتون اور حوا
دختر یزید بن سکن کد ایک قرار دیتے ہیں،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے،لیکن ابن مندہ نے ان کا ترجمہ حواء دختر سکن اشہلیہ کے نام سے لکھاہے۔
v