سائیں حیاتیانوالہ رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ
سائیں حیاتیانوالہ رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کا اصلی نام محمد حیات المعروف حیات حسین المشہورحیاتیانوالہ تھا۔آپ شیخ چنن شاہ بن شیخ صِدقی شاہ صاحب رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ کے چوتھے بیٹے اور مریدوخلیفہ تھے۔
تعلیم
آپ نےقرآن مجید حافظ علم الدین صاحب قادری رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھا۔ جومولاناغلام رسول بن مولانامحمد شفیع صاحب قادری رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ ارجمندتھے۔آپ نے علم ادب فارسی کی درسی کتابیں بعض دوسرے استادوں سے پڑھیں۔زبان فارسی پر خاصہ عبورتھا۔
اخلاق و عادات
آپ صاحب علم و عقل ودانش وفرہنگ تھے۔تقریربڑی دلچسپ اور مؤثر ہوتی تھی۔کوئی کلام شروع کریں تودل نہ چاہتاتھاکہ چھوڑدیں۔عالی دماغ پُرحوصلہ تھے۔ رموزتصوّف اور اسرارِ فقہ سے خوب واقف تھے۔خوش مزاج لطیفہ گوتھے۔
مذہبی روش
آپ کے آباؤاجدادسب مذہباً اہل سنت والجماعت حنفی تھے۔آپ نے ابتدأ میں نواب محمد حیات خاں صاحب رئیس اعظم واہہ کی ملازمت کی۔چونکہ وہ مذہباً شیعہ اثناعشری تھے۔اس لیے آپ متاثر ہونے سے خالی نہ رہے۔لیکن آپ تبرّائی شیعہ نہ تھے۔محض تولّائی تھے اور تفضیل مرتضوی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے۔آ پ کے غالی شیعہ نہ ہونے کے چند واقعات مجھے یاد ہیں۔ازانجملہ
عشرہ مبشرہ کے متعلق اعتقاد
مؤلف کتاب ہذاکاچشم دید واقعہ ہے کہ ایک بارمیں نے آپ کے پاس قلمی درود مستغاث دیکھا۔
جس پر آپ روزانہ وظیفہ پڑھاکرتے تھے۔میں نے پوچھاکہ آپ تو شیعہ مذہب رکھتے ہیں اور اس درود شریف میں عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اسمأ گرامی آتے ہیں۔جن کے شیعہ لوگ منکرہوتےہیں۔یعنی یہ عبارت:
"اللّٰھم ارحم ابا ن التقی وعمرالنقی وعثمان الزکی وعلیان الوفی اسد اللّٰہ المرتضی وفاطمۃ الزھرأ وخدیجۃ الکبرٰی وعائشۃ الصدیقۃ العلیاوالحسن الرضی والحسین الشھید المجتبی و الشہدأ الکربلأ والسعد والسعید والطلحۃ والزبیروعبدالرحمٰن ابن عوف وَاباعبیدۃ ابن الجراح والعشرۃ المبشرۃ وسائر والصحابۃ والتابعین والخلفأ الراشدین رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین "۔
آپ نے کہا یہ ہمارے بزرگوں شیخ پُھلّے شاہ وغیرہ کا وظائف ہے اورآباؤاجداد سے ہمارے بزرگوں کا معمول ہے۔اس سےہم کیسے انکارکرسکتے ہیں۔
اس سے میں نے سمجھ لیاکہ آپ صحابہ کرام معتقد ہیں۔صرف تفضیل علی رضی اللہ عنہ آپ کا مذہب ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اعتقاد
ایک روزآپ کی مجلس میں کسی شیعہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے متعلق کوئی ناجائزکلمہ بولا۔آپ نے اس کو سخت جھڑکا اور کہا کہ خداتعالیٰ نے ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن مجید میں فرمایاہے۔ازواجہ امّھاتھمیعنی پیغمبرکی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔اگرتواپنے آپ کومومن سمجھتاہے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاتمہاری ماں ہیں اورجوشخص اپنی ماں کو بُراکہے وہ حرامزادہ ہے۔
حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے متعلق عقیدت
آپ کے سکونتی شہر قصبہ شہررسول نگر میں شیعوں کی دوپارٹیاں تھیں۔ایک منکرانِ غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے معتقدان غوث الاعظمؒ۔ آپ دوسری پارٹی کے لیڈرتھےاورآپ کہاکرتے تھے۔کہ ہم کو دوفضیلتیں حاصل ہیں۔ہم شیعانِ علی رضی اللہ عنہ سے بھی ہیں اور شیعانِ غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ سے بھی ۔آپ منکرانِ غوثیہ کو اپنی مجالس میں شامل نہیں کرتے تھے۔
کتابی فیضان
میرے ساتھ آپ بہت محبّت والفت رکھتے تھے۔مطالعہ کے لیے ہرقسم کی کتابیں مجھے دیاکرتے۔چنانچہ کتاب سفینتہ الاولیأ فارسی قلمی مصنّفہ داراشکوہ قادری رحمتہ اللہ علیہ اور کتاب تاریخ ایران فارسی مطبوعہ مصنّفہ سرجان مالکم صاحب بہادر اور کتاب جنات الخلود فارسی مطبوعہ مصنّفہ مولانامحمد رضاامامی رحمتہ اللہ علیہ میں نے آپ سے لے کر مطالعہ کیں۔
اورکتاب ثواقب المناقب فارسی علّامہ شیخ محمد ماہ صداقت گنجاہی رحمتہ اللہ علیہ اور رسالہ تصوّف فارسی مصنّفہ شیخ حسین قادری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ اوررسالہ تہنیّت فارسی میں نےآپ سے لے کر اپنے واسطے نقل کئے۔
تصنیفات
آپ کی چند تصانیف یادگارہیں۔
۱۔روزنامچہ حیاتیانوالہ
انیس سال تک آپ فارسی میں اپناروزنامچہ لکھتے رہےاس میں بڑے مفیدمضامین ہیں۔لیکن افسوس کہ پسماندگان میں کوئی ایساقابل شخص نہیں جو ان کو ایک جگہ کتابی صورت میں بالترتیب مرتّب کرسکے۔
۲۔رسالہ امرذات
یہ تاریخی ہجری نام ہے۔۱۳۴۲ھ کا واقعہ ہے کہ اولاد حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ یعنی سادات برخورداریہ اورسادات ہاشمیہ کے درمیان مسئلہ خلافت نوشاہی کے متعلق اختلاف پیداہوگیا۔جس میں فریقین کے مناظرےہوئے۔اُس میں آپ کو ثالث ومنصف مقررکیاگیا۔آپ نے وہ سب مناظرے اپنے سامنے سُنےاورفریقین کے دلائل کو ملاحظہ کیا۔آخر آپ نے کتب خاندان کے حوالوں سے فیصلہ دیاکہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے فرزند اکبرسید حافظ محمد برخورارصاحب بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کو اپناولی عہد وسجادہ نشین بنایاتھااورآج تک ساداتِ برخورداریہ ہی صاحبِ خلافت اورگدی نشین چلے آتے ہیں۔یہ فیصلہ آپ نے ایک رات میں لکھا۔
۳۔مضامین مختلفہ
آپ کے بعض مضامین رسالہ قادری نوشاہی لاہور۱۳۴۲ھ میں شائع ہوتے رہے۔
مکتوبات
آپ کے تین عدد مکتوب مجھے دستیاب ہوئے ہیں۔وہ یہاں لکھے جاتے ہیں۔
مکتوب اوّل
یہ مکتوب آپ نے مناظرہ مسئلہ خلافت نوشاہی کے ایام میں سادات ہاشمیہ کے ثالث شیخ فضل حسین صاحب بھلوالی رحمتہ اللہ علیہ کے نام لکھاتھا۔
"شیخ صاحب جی۔السلام علیکم۔آپ کی فرمائش پر صاحبزادگان و دیگرزمیندارانِ ساہنپالیہ۱؎موجود دربارہیں۲؎۔اورآپ کی تشریف آوری کے منتظر،تشریف لاویں۔انشأ اللہ شریفانہ تجسّس ۳؎ وتحقیقات ہوگی۔کوئی بےادبانہ کلام نہیں ہوگی۔والسلام"۔ "فقیرحیاتیانوالہ بقلم خود"
مکتوب دوم
فیصلہ خلافت نوشاہیہ یعنی رسالہ امرذات شائع ہوجانے کے بعد چند عرصہ خاموش رہ کر ساداتِ ہاشمیہ رنملویہ اوراُن کے ثالث شیخ فضل حسین صاحب بھلوالی نےبمعیت و معاونت صاحبزادگان سچیاریہ نوشہرویہ مسئلہ خلافت کو دوبارہ چھیڑناچاہا۔اس اَمر کے متعلق پیر محمد شاہ بن پیرگوہرشاہ صاحب سلیمانی رنملوی نے بذریعہ خط سائیں حیاتیانوالہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو آگاہ کیاکہ شیخ صاحب آرہے ہیں۔آپ بھی دربارشریف آویں۔آپ نے اس واقعہ کی اطلاع سید فضل حسین بن سید غلام حسن بن سید قطب الدین صاحب برخورداری ساہنپالوی ڈھلوی رحمتہ اللہ علیہ کوبذریعہ مکتوب بھیجی ۔وہ یہ ہے۔
"عزیزم صاحبزادہ فضل حسین صاحب سجادہ نشین۔سلمہ ربہٗ
بعددعوات آنکہ ۔آج مجھے عزیزم محمد شاہ صاحب کا دستخطی خط آیاکہ شیخ فضل حسین آرہاہے۔ دربار آؤ۔میں نے اُن کو لکھ دیاہے۔
اگرگدی نشینی کاتنازعہ ہے تو فیصلہ تمہارے پاس ہے۔ان کو سنادہ۔مجھے بلانے کی کیاضرورت ہےاور اگرتم کو ضرورت پڑے تب بھی آجاؤں گا۔اگرتم سے کوئی قیل و قال دربارہ سابقہ تنازعہ ہووے۔ تو تم وہی فیصلہ سناکرخوب بات چیت کرو۔گدی نشینی تمہاری ہے نہ کہ میری ۔ہاں۔اگرنئے سرے سے وہی تنازعہ سابقہ جاری کردیاگیاہے تو اول تو تم کسی اَور کوثالث مقررکرو۔یاپھرمجھے ہی ثالث مقررکرلو۔مگراب وہ معاملہ طے شدہ ہے۔اس کو دوبارہ جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔بعض تخم الشیاطین اُن کے ہمراہ آویں گے تو تم لاحول کے عصاسے دُور کرسکتے ہو۔میری کیاحاجت ہے۔اپنے سب معززمعرکہ میراالسلام علیکم کہہ دو۔والسلام"۔ "فقیرحیات حسین"
۱؎زمیندارانِ ساہنپالیہ سے مراداولاد چوہدری ساہنپال مرحوم ہے جن کے نام رسالہ امرذات میں درج ہیں۱۲۔۲؎دربارسے مراددرگاہِ عالیہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہےجہاں مناظرہ ہوا تھا۱۲۔۳؎ شیخ صاحب اپنے تحریرات میں بجائے جستجویاتلاش کے لفظ تجسّس استعمال کیاکرتے تھے۔ اس لیے حیاتیانوالہ صاحب نے تجسّس لکھ کر ان کی طرزتحریریاددلائی ہے۱۲۔سیدشرافت
مکتوب سوم
چوہدری سلطان علی صاحب ساکن چک دادن ضلع گوجرانوالہ نے بسرپرستی سائیں فتح خاں صاحب قلند ر ساکن راولپنڈی ۔رسالہ قادری نوشاہی ماہوار لاہورسےجاری کیا۔تو آپ نے اُس کے نام یہ مکتوب بھیجا۔جورسالہ مذکورپرچہ جمادی الثانی۱۳۴۲ھ کے ص۳۳پرشائع ہوا ۔وہ یہ ہے۔
"مقام رسول نگر۔مورخہ ۲۲دسمبر۱۹۲۳ء
مکرم مدیر صاحب رسالہ قادری نوشاہی لاہورزاداشفاقہٗ۔
السلام علیکم۔کل ۲۱دسمبرمجھے رسالہ قادری نوشاہی بذریعہ ڈاک ملا۔اب میں کیالکھوں کہ مجھے کس قد رخوشی و مسرّت ہوئی۔یہ کہنے سے نہیں رک سکتاکہ وہ مشکل امرجس کا کبھی وجودمیں آنا متصوّر نہ تھا۔وہ ایک باہمّت اورغیورانسان نے کر دکھلایا۔خاندانِ موصوف کی کم احساسی نے آج تک کروٹ نہ بدلی۔مگرجب کوئی قوم اپنی حالت آپ بدلنے کی ہمّت نہ کرے۔قدرت کاملہ اس کو خود بخود نہیں پوچھتی۔میں آپ کی ہمّت مردانہ کا کہاں تک مشکورہوسکوں۔مگر"ہمّت مرداں مددِخدا" مشہورمثل ہے ۔اب جس محبّت اورعشق اللہ کے اظہارکابیڑااُٹھایاہےاس کو باعمل کرناہوگا۔ انشأاللہ تعالیٰ ایسے کاموں میں امدادغیبی ہواکرتی ہے۔خاندان ممدوح جس قدر معروف و مشہورہے۔ اسی قدر اس کے بعض ارکان کاہلی اور تساہل کا نمونہ ہیں۔مگرالحمدلِلہ کہ آپ نے میدانِ عمل میں نکل کر لبیک کہہ دیا۔اب بھی اگر غیرت دامنگیرنہ ہوئی تو بس پھرہرگزایساآزاد وقت ہاتھ نہ آوےگا۔
اللہ والواُٹھو۔اٹھوہی نہیں بلکہ لبیک کی آوازسنواوراس کادَامے،دِرمےبکلامے ہاتھ بٹاؤ۔جس نے عین وقت پر لبیک کہہ دی وہ کامیاب ہوگا۔ورنہ جوسچ آج خاندان کا فخرنظرآرہاہے۔وہ بالکل جھوٹ سے متبدل ہورہاہے۔کسی کو حضرت پاک رحمان بھڑی والوں کاروضہ خم ہوکرسلام کررہا ہے۱؎۔کوئی پُھونک مارکرزمین کوآسمان بنارہاہے۔
آفرین صد آفرین لبیک کہنے والے۔آپ نے عین وقت پر لبیک کہہ دی۔مبارک باد انشأ اللہ تعالےٰ انجام بخیر ہوگا۔
اب میں اپنے متعلق کچھ لکھتاہوں کہ میر ا تعارف ہوجائے۔میرانام فقیرحیاتیانوالہ ہےمیں جناب نوری حضوری حضرت سخی رحمتہ اللہ علیہ کا پوتاہیں۔جوحضرت گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کےہادی ہدایت راہنمائے طریقت ہیں۔میرے پاس سب خاندان فقرأ کی کم و بیش تواریخ موجودہیں۔میں انشأ اللہ آپ کو واقعات نویسی میں صحیح واقعات کی امداددینے کو تیارہوں اوربعض مضمون رسالہ کے واسطے دیتارہوں گا۔میرے نام رسالہ موصوف جاری رکھنا۔دُعایہ ہے کہ وہ ذات لایزال آپ صاحبان کے ارادہ میں استقلال اور برکت دے۔آمین اورباقی اراکین خاندان کو بھی رسالہ ہذاکی امداد اور تائیدکی ہدایت ہووے۔
نوٹ ضروری
ذراپوراخیال رکھناکہ خاندانِ موصوف سے کو ن کون اصحاب آپ کی تائید میں ہم آہنگی ظاہر کرتاہے۔ان سب تحریرات کو رسالہ موصوف درج کرنا۔اس سے آپ کو خاندان کے احباب کا احساس معلوم ہوجائے گا"۔
"فقیرحیات حسین المعروف حیاتیانوالہ ڈیرہ سخی سرکار"
۱؎یہ پیرمحمد شاہ بن پیرگوہرشاہ صاحب سلیمانی ساکن رَن مل پر طنزکی ہے۔کیونکہ عوام الناس میں مشہورہےکہ جب پیرصاحب پالکی نشین ہوکربھڑی شریف کے میلہ پرجاتے ہیں توحضرت شاہ رحمان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا روضہ کا گنبد جھک کراُن کو سلام کرتاہے۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہےاوربعض جاہل مریدوں کی پیداکردہ افواہ ہے۔جوسراسرافتراہے۔بلکہ پیرمحمد شاہ صاحب خود
جُھک شاہ رحمان صاحب کو سلام کرتے ہیں۱۲سیدشرافت
ارشادات
آپ کہاکرتے کہ ہمارے آباواجدادملنگ طبیعت اور قلندرانہ اطوارہوئے ہیں۔اس کتاب کے طبقہ ہذا میں شیخ پُھلّے شاہ صاحب رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ جوائے شاہ صاحب سید نگری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ خان بہادرصاحب رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ اورشیخ فقیربخش صاحب رسولنگری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ صِدقی شاہ صاحب رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ کے جتنے واقعات اور عشقیہ حالات میں نےلکھے ہیں۔یہ سب آپ کی زبان سے منقول ہیں۔آپ نے اپنے بزرگوں کی زبان سے روایت کئے تھے۔
اولاد
آپ کی بیوی کا نام مسمات رحمت بی بی جَٹی تھا۔جو جمعہ ۲۵ذی الحجہ ۱۳۶۷ھ کو فوت ہوئی۔اس کے بطن سے آپ کا ایک لڑکاصاحبزادہ مسعودحسین تھا۔جوبچپن میں ۱۳۴۲ھ میں آپ کی زندگی میں فوت ہوگیا۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص مریدیہ تھے۔
۱۔سائیں عنایت حسین بن شیخ سجاول شیر سلیمانی برادرزادہ رحمتہ اللہ علیہ رسول نگر ضلع گوجرانوالہ
۲۔سائیں ولایت حسین بن شیخ سجاول شیر رسول نگر ضلع گوجرانوالہ
۳۔سیدخوشی محمد بن سید محمد علی ہاشمی رنملوی رحمتہ اللہ علیہ نندگڑھ سیالکوٹ
۴۔سائیں بڈھافقیر رسول نگر ضلع گوجرانوالہ
۵۔سائیں گُھوگی فقیر رسول نگر ضلع گوجرانوالہ
تاریخ وفات
سائیں حیاتیانوالہ کی وفات سوموار۱؎۔انتیسویں شعبان ۱۳۵۷ھ مطابق آٹھویں کتک ۱۹۹۵بکرمی میں ہوئی۔آپ کا جنازہ حافظ علم الدین صاحب حنفی قادری رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے پڑھایااور رسول نگرکے مغربی طرف گورستان شیخ پُھلّے شاہ میں دفن ہوئے۔
مادہ تاریخ ہے "عبدغفار"۔
۱؎سائیں حیاتیانوالہ کا مزید ذکر شریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے ساتویں حِصّہ مناہج الآثارنام میں لکھاجائےگا۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)