ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے، ہجرت مدینہ کی سعادت بھی حاصل کی، کاتب وحی مقرر ہوئے، بہت ہی بہادر تھے۔ دور جاہلیت اور دور اسلام دونوں مین ان کی بہادری کے واقعات بہت مشہور ہیں اور خصوصاً فتوحات شام میں ان کی جنگی مہارت اور جذبۂ جہاد قابلِ ستائش ہے، عراق کا مشہور شہر بصرہ آپ ہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ جنگ بدر میں کفار کے ساتھ تھے۔ پھر اللہ نے ان پر اور ان کی والدہ سیدتنا امّ رومان بنتِ عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اپنا خصوصی فضل وکرم فرمایا کہ دونوں اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے آپ کی والدہ نے بھی ہجرت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ۵۳ سن ہجری میں مکۂ مکرمہ کے ایک پہاڑ کے قریب ہوئی۔ آپ کی ہمشیرہ امّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپکے جسد خا کی کو حرمِ کعبہ میں لائیں اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےبیٹےمحمد بن عبد الرحمٰن نے بھی اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان سے مشرف ہوئے۔
سیدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکر کی سعادت مندی:
اللہ کے حبیب صلی تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنی علالت کے آخری ایام میں تر مسواک استعمال فرمائی۔ آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کی یہ سعادت مندی ہے کہ جو مسواک سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے استعمال فرمائی وہ آپ ہی کے پاس تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ مسوا ک حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اشارہ نبوی کےمطابق لی اسے اپنے دانتوں سے نرم کیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی آپ نے خوب مسواک فرمائی اور اس سے زائد فرمائی جتنی عادت شریفہ تھی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی، حضرت سیدتنا اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دنیا کے اس آخری دن میں اللہ عزوجل نے میرے لعاب دہن کو حضرت اکرم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لعاب دہن سے ملادیا جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی آخرت کا پہلا دن تھا۔(سیرت سید الانبیاء،ص ۶۰۲،مدارج النبوۃ ، ج۲ ، ص۴۲۶)