شیخ ابو عبد اللہ احمد بن یحییٰ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
آپ مشائخ صوفیاء کے امام اور سردار ہیں۔ بغداد سے شام منتقل ہوگئے تھے اور پھر وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔
حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں! ابو عبد اللہ احمد بن یحیٰی بغدادی رملہ میں رہائش رکھتے تھے حضرت ذوالنون اور ابو تراب علیہما الرحمہ کے مصاحبین میں سے تھے اور آپ کے والد شیخ یحییٰ رحمہ اللہ علیہ آئمہ کبار میں سے تھے۔ اور آپ بہت ہی لطیف نکات بیان کرتے تھے ۔
عبد العزیز بن علی الوراق فرماتے ہیں ! میں نے سنا علی بن عبد اللہ بن حسن ھمدانی سےوہ فرماتے ہیں میں نے محمد بن داؤد سے سناآپ فرماتے تھے ! میری آنکھوں نے آپ جیسا عراق ،حجاز ، کوہستان اور شام میں نہیں دیکھا ۔
محمد بن حسین نیشاپوری نے فرمایا!دنیا میں صوفیا کے صرف تین آئمہ ہوئے ہیں ۔
۱۔ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ نیشاپور میں ۔
۲۔اور جنیدرحمۃ اللہ علیہ بغداد میں ۔
۳۔اور ابوعبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ شام میں ۔
اقوال:
(۱)جس شخص کی نظرمیں تعریف اور برائی(یعنی وہ کسی کے تعریف کرنے سے خوش نہ ہوتاہو اور برائی کرنے سے ناراض نہ ہوتا ہو)برابر ہو وہ زاہد ہے۔اور جو شخص اول وقت میں فرائض ادا کرے اور پابندی کرے تو وہ شخص عابد ہے۔اور جو شخص اپنے تمام افعال میں فاعلِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کو جانے وہ موحّد ہے۔
(۲)تیرا (ہروقت)روزی کے چکرمیں پڑے رہنا تجھے حق (اللہ تعالیٰ) سے دور اورخَلق (مخلوق) کا محتاج کردیگا۔
(۳)محمد بن حصن بن علی یقطینی کا قول ہے :میرے سامنے ابو عبد اللہ سے سوال کیا گیا کہ کچھ لوگ توکل اختیار کر کے بلازادِ راہ صحراء کی طرف نکل جاتے ہیں لیکن ان کا انجام موت ہوتا ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ اہل حق کا فعل ہے ۔
(۴)محمد بن حسن بن موسیٰ، ابو حسین فارسی۔ کے سلسلۂ سند سے احمد بن علی کا قول مروی ہے:میرے سامنے ابو عبد اللہ جلاء سے حق کے بارے یں سوال کیا گیا؟فرمایا جب حق ایک ہے ایک ہی ذات سے اسے طلب کرنا ضروری ہے۔نیز فرمایا:مریدین کے ارادوں کا رخ بارے میں سوال کیا گیا ؟فرمایا جب حق ایک ہے تو ایک ہی ذات سے اسے طلب کرنا ضروری ہے ۔ نیز فرمایا :فرمایا :مریدین کے ارادوں کا رخ طلب طریق کی طرف ہوگیا جسکی وجہ سے انہوں نے اپنے نفسوں کو طلب میں فناء کردیا۔ اور عارفین نے اپنے ارادوں کا رخ اللہ کی طرف کیا جسکی وجہ سے وہ ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔
(۵)محمد بن حسین محمد بن عبد اللہ رازی ۔ ابو عمر دمشقی کے سلسلۂ سند سے ابو عبد اللہ جلاء کا قول مروی ہے:خواہش کے ذریعہ منصب حاصل کرنے والے انسان سے منصب سلب کر لیا جاتا ہے۔
(۶)ابو عبد اللہ جلا سے سوال کیا گیا محبین کی راتیں کیسے گزرتی ہیں؟
انہوں نے جواب میں درج ذیل شعر کہا :محبت الہٰی سے صاحب قلب انسان کو کیا معلوم کہ محبین کے قلوب شب کو محبت الٰہی کی وجہ سے کیسے جوش مارتے ہیں۔
(۷)محمد بن حسین، محمد بن عبد العزیز طبری ، ابو عمر و دمشقی کے سلسلۂ سند سے ابن جلاء کا قول مروی ہے:ایک بار میں نے اپنے والدین سے اللہ کے نام پر مجھے ہبہ کرنے کی درخواست کی انہوں نے اسی وقت مجھے اللہ کے نام پر ہبہ کردیا ، اس کے بعد میں ایک طویل زمانہ تک ان سے غائب رہاپھر ایک بارش والی شب میں نے ان کے دروازہ پر دستک دی۔ انہوں نے پوچھا کون؟میں نےکہا میں تمہارا لڑکا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنا بچہ اللہ کے نام پر ہبہ کردیا ، اور ہم عرب لوگ ہبہ کےنے کے بعد اس سے رجوع نہیں کرتے چنانچہ انہوں نے میرے لئے دروازہ نہیں کھولا۔
(۹)ابو عمر دمشقی فرماتے ہیں !میں نے حضرت ابو عبد اللہ کو وعظ فرماتے ہوۓ سنا آپ نے فرمایا !
اپنے بھائی کا حق مت ضائع کر اور اس سے محبت ومودّدت سے پیش آ،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر (دوسرے مسلمان کے)حقوق فرض کیے ہیں۔ اُن حقوق کو نہیں ضائع کرتا مگر وہ شخص جو اللہ تعالی ٰکے حقوق کی رعایت نہیں کرتا ۔
وصال:
اور جب آپکا انتقال ہوا تو(عوام)نےآپکی طرف دیکھا توآپ مسکرارہے تھے ابوعبداللہ الطبیب نے کہا کہ بیشک آپ زندہ ہیں پھر آپکے جسم کو (check)کیا توکہا کہ آپکا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر جب آپکے چہرے سے کپڑا ہٹایاتوکہا:میں نہیں جانتا کہ آپ زندہ ہیں یاانتقال فرما چکے ہیں۔
قَالَ أَبُو يَعْقُوب الأدرعي: توفِي أَبُو عَبْد اللَّهِ بْن الجلاء يوم السبت لاثنتي عشرة خلت من رجب سنة ست وثلاث مائة.
بروز ہفتہ۔ ۱۲،رجب المرجب۔ ۳۰۶ ۔ہجری میں انتقال ہوا۔ (تاریخِ بغداد)
نوٹ: بہت سے تقویمی کیلنڈر ز، کتب، اور ویب سایٔٹس میں آپ کا وصال ۱۱صفرالمظفرلکھا ہوا ہے۔ہماری تحقیق کے مطابق آپکا وصال۱۲،رجب المرجب ہے۔(اللہ ورسولہ اعلم بالصّواب)
مأخذومراجع:
طبقات الصوفیہ۔
حلیۃالاولیاء۔
تاریخ ِبغداد۔