حضرت ابو حمزہ خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا اصل وطن نیشاپور تھا۔ اجلہ مشائخ خراسان سے تھے، پیر طریقت زہد و حقیقت میں یکتا تھے ایک بار ایک وادی میں سفر کے دوران نذر مانی کہ کسی سے کوئی امداد قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی اسباب دنیا میں سے کوئی چیز اپنے ساتھ رکھی دوران سفر لوٹا یا رسی یا ڈول کچھ بھی نہ تھا چاندی کا ایک ٹکڑا جو آپ کی ہمشیرہ نے دیا تھا جیب میں تھا وہ بھی راہ میں پھینک دیا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا، آپ اس میں جاگرے، تین دن گزرے تو آپ نے محسوس کیا کہ باہر کوئی لوگ گزر رہے ہیں خیال آیا کہ انہیں آواز دے کر امداد کے لیے کہا جائے مگر خاموش رہے کہ اس طرح اللہ کے بغیر کسی دوسرے سے امداد طلب کی جائے۔ وہ کنویں کے سر پر آپہنچے، یہ کنواں راستے میں ایسی جگہ پر تھا کہ لوگوں کے گرنے کا احتمال تھا چنانچہ ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اسے مٹی سے پُر کردیا جائے ان کے اس فیصلے سے آپ کو بے پناہ پریشانی ہوئی۔ اگرچہ زندگی سے مایوس ہوگئے مگر دل اللہ کے توکل پر مطمئن تھا، لوگوں نے کنویں کی چھت لکڑیاں ڈال کر اُسے ڈھانپ دیا، رات کنویں کے کنارے پر ایک دہشت ناک آواز سنائی دی، یوں معلوم ہوا کہ کنواں کھل رہا ہے۔
آپ نے دیکھا ایک لمبا سا جانور کنویں میں کودا ہے۔ آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اس جانور کی امداد سے بھی میں باہر نہیں جاؤں گا، آواز آئی حمزہ! تمہارا یہ توکل خلاف عبادت ہے، تم باہر نکل آؤ، یہ جانور ہمارے ہی حکم سے اندر آ رہا ہے چونکہ تم نے صرف ہماری ذات پر توکل کیا ہے، ہم نے ہی ایسے مہیب جانور کو تمہاری خدمت میں مقرر کیا ہے، جسے دیکھ کر جان نکل جاتی ہے، حضرت شیخ نے اس جانور کی دم پکڑی اور کنویں سے باہر آگئے۔
آپ کی وفات ۲۹۰ھ میں ہوئی تھی۔ آپ حضرت ابوحفص حداد کے پہلو میں دفن کیے گئے۔
شیخ اہل یقین ابوحمزہ
سال ترحیل دے عیاں گردد
سدِ حق راہ امیں ابوحمزہ
از ولی قطب دین ابوحمزہ
۲۹۰ھ
(خزینۃ الاصفیاء)