حضرت ابو سعید چشتی دست رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ نور الدین بن شیخ عبدالقدوس کے بیٹے تھے اور شیخ نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اعظم تھے پہلے آپ اپنے دادا شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوئے اُن کی وفات کے بعد بلخ میں چلے گئے اور وہاں شیخ نظام الدین کی خدمت میں رہ کر تکمیل پائی۔
مراۃ الاسرار اور سواطع الانوار(اقتباس انوار) کے مصنفین لکھتے ہیں کہ ایک شخص درویشوں کے کمالات کا منکر تھا جس بزرگ کے پاس جاتا کہتا میں طالبِ خدا ہوں محنت و ریاضت میں نہیں کرسکتا مجھے کوئی ایسا بزرگ چاہیے جو اپنی ایک نگاہ سے سب کچھ سکھادے وہ مختلف بزرگوں سے ہوتا ہوا شیخ ابو سعید چشتی کے پاس آیا آپ کے ہاتھ میں اُس وقت ایک ڈنڈا تھا آپ نے فرمایا آتجھے میں اِس ڈنڈے سے خدا تک پہنچاتا ہوں یہ کہہ کر آپ نے ایک ڈنڈا اس کے سر پر مارا عالم ملکوت اُس پر ظاہر ہوگیا دوسرا مارا تو عالمِ جبروت ظاہر ہوگیا تیسرا مارا تو عالم شہود لاکیف منکشف ہوگیا بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا تین دن تک پڑا رہا ہوش میں آیا تو مرید ہوکر ریاضتیں اور مجاہدے کیے اور آپ کی تربیت میں رہا۔
سواطع الانوار میں لکھا ہے کہ شیخ ابو سعید کے بڑے خلفاء تھے آپ نے ان سب کو تربیت دی اور پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔ اُن میں سے چند ایک کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ شیخ محمد صادق گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
۲۔ شیخ محمد ابراہیم سید پوری رحمۃ اللہ علیہ
۳۔ شیخ محب اللہ صدیقی صدر پوری رحمۃ اللہ علیہ (م پ ۱۰۵۸ ہجری)
۴۔ شیخ ابراہیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ
۵۔ شیخ خواجہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
مراۃ الاسرار میں آپ کی وفات ۱۰۴۹ ہجری لکھی ہے آپ کا مزار گوہر بار گنگوہ میں ہے۔
چو آخر بحکم قضا رفت بجنت
ز نیا بدار بقا بو سعید
ندا شد ز دل سال تاریخ او
کہ مخدوم اہل صفا بو سعید
۱۰۴۹ھ