حضرت شیخ احمد بن ابی الحسن المعروف ابن الرفاعی
حضرت شیخ احمد بن ابی الحسن المعروف ابن الرفاعی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ احمد بن ابی الحسن المعروف ابن الرفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ذوالمقامات العلیۃ ولا حوال السنیۃ خرق سبحانہ علی یدیہ العوابد وقلب لہ الا عیان والظھر العجائب ولکن اصحابہ ففیھم الجیدوالری یدخل بعضھم النیران ویلعب یالحیات وھذا ماعرفہ الشیخ ولا صلحاء اصحابہ نعو ذبااللہ من الشیطان یعنی آپ بڑے مقامات اور بزرگ حالات رکھتے تھے۔اللہ سبحانہ نے ان کے ہاتھ پر بہت سے خرق عادات اور قلب ماہیات کی ہیں۔عجائبات ظاہر کیے ہیں،لیکن ان کے مرید اچھے بھی ہیں اور ردی بھی ہیں۔بعض ردی آگ میں گھس جاتے تھے۔سانپوں سے کھیلتے تھے،لیکن اس کو شیخ پسند نہ کرتے تھےاور نہ ان کے نیک بخت مرید شیطان سے پناہ مانگتے تھے۔آپ امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ان کے خرقہ کی نسبت پانچ واسطہ سے حضرت شیخ شبلی ؒ تک پہنچی ہے۔ام عبید کے رہنے والے ہیں،جو کہ بطائح کے علاقہ میں ہے۔ابو الحسن علی جو آپ کے بھانجے ہیں۔بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ان کے خلوت خانہ کےدروازہ پر بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں ان کے پاس کسی کی آواز سنی ۔جب میں نے دیکھاتو ان کے پاس ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا۔دیکھا کہ پہلے اس سے میں نے اس کو کبھی نہ دیکھاتھا۔دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔پھر وہ شخص خلوت خانہ کی کھڑکی سے باہر نکل گیااور بجلی کی طرح ہوا میں اڑگیا۔تب میں شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ یہ کون شخص تھا؟کہا، کیا تم نے اس کو دیکھا،میں نے کہا،ہاں،کہا، یہ وہ شخص ہے کہ خدائے تعالیٰ محیط سمندر کی اس سے حفاظت کرتا ہے۔چار مردوں سے ایک یہ ہے۔تین دن ہوگئے ہیں کہ یہ مہجور اور معزول ہے،لیکن خود نہیں جانتا۔میں نے کہا،اے میرے سردار اس کی مہجوری کا کیا سبب ہے؟ کہا،یہ بحر محیط کے ایک جزیرہ میں رہتا ہے۔وہاں تین دن تک متواتر بارش ہوتی رہی۔اس کے دل میں یوں آیا کہ کاش یہ بارش آبادی میں برستی ۔اس کے بعد استغفار کیا۔سو اس اغراض کے سبب مہجور یعنی خدا سے دور جاپڑا ہے۔میں نے کہا،سیدی تم نے اس کو مہجوری کی خبر بھی کی۔کہا،نہیں مجھے شرم آئی۔میں نے کہا،اگر فرمائیں تو میں اس کو خبر دوں۔کہا، تم کردو گے۔میں نے کہا،ہاں۔کہا،اپنےگریبان میں سر کرلے۔میں نے کرلیا۔میرے کان میں ایک آواز آئی کہ اے علی اپنا سر نکال مین نے سر نکالا تو اپنے آپ کو بحر محیط کے ایک جزیرہ میں دیکھا۔تب میں اپنے کام میں حیران رہ گیا۔میں اٹھا اور تھوڑی دیر تک گیا۔اس مرد کو دیکھا تو میں نے اس کو سلام کہااور وہ قصہ میں نے اس کو کہا،مجھے قسم دی کہ جو کچھ میں کہو وہی کرنا۔میں نے کہا، ہاں ایسا ہی کروں گا۔کہا،میرے خرقہ کو میری گردن میں ڈال اور مجھ کو زمین پر کھینچ اور کہویہ اس شخص کی سزاہے کہ خدائے تعالیٰ پر اعتراض کرے۔میں نے خرقہ کو اس کی گردن میں ڈالا اور چاہا کہ اس کو کھینچون۔اتنے میں ہاتف نے آواز دی کہ اے علی اس کو چھوڑ دے۔کیونکہ آسمان کے فرشتے رونے لگے ہیں۔خدائے تعالیٰ ان سے خوش ہوگیا۔جب میں نے یہ آوازسنی تو بے ہوش ہوگیا۔جب ہوش میں آیا تو اپنے آپ کے اپنے ماموں کے پاس دیکھا۔واللہ مجھے معلوم نہ ہوا کہ کیونکر وہاں گیااور کس طرح واپس آیا۔
جب کسی وقت کوئی شخص سیدی احمدؒ سے تعویز مانگتا اور کاغذ لاتا کہ وہ کچھ لکھ دیں"اگر سیاہی نہ ہوتی تو کاغذ لیتے اور سیاہی کے بغیر لکھ دیتے۔ایک دفعہ ایک شخص کے لیے بے سیاہی تعویز لکھ دیا اور مدت تک وہ غائب رہا۔اس کے بعد پھر اسی کاغذ کو امتحان لایا اور کہا"اے شیخ اس پر آپ دعا لکھ دیں۔جب آپ نے اس کاغذ کو دیکھا تو کہا" اے فرزند یہ کاغذ لکھا ہوا ہے اور واپس دے دیا۔ایک دن آپ کے دو مرید جنگل میں گئے مل کر بیٹھے اور باتیں کرتے رہے۔ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم اس مدت تک سیدی احمد کی خدمت سے کیا کچھ حاصل ہوا؟کہا" تم جو کچھ آرزو کرتے ہو"کرو۔اس نے کہا" اے میرے سردار میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت ہماری دوزخ کی آزادی کا کاغذآسمان سے اترے۔دوسرے نے کہا"خدا کا بہت کرم ہے اور اس کا فضل بے حد۔اس حالت میں یہ باتیں کررہے تھے کہ دفعتہً ایک سفید ورق آسمان سے نیچے گرا۔اس کو لے لیا۔اس میں کچھ نہ لکھا تھا۔تب وہ سیدی احمد کی خدمت میں آئے اور اپنا احوال کچھ بھی نہ کہا۔صرف اس کاغذ کو آپ کو دے دیا۔جب سیدی نے اس کاغذ کو دیکھا تو خدا کا سجدہ کیا۔جب سجدہ سے سر اٹھایا تو کہا،قدرت کے ہاتھ سیاہی سے نہیں لکھا کرتے۔یہ خط نور سے لکھا ہوا ہے اور کہا۔الحمداللہ الذی ارانی عتق اصحابی من النار فی الدنیاقب الاخرات یعنی خدا کی تعریف ہے۔جس نے کہا میرے مریدوں کا دوزخ سے آزاد ہونا،دنیا میں آخرت سے پہلے ہی دکھادیا۔۔کہتے ہیں،باوجود عبادت میں کمال مشغول رہنے کے ان کے لطیف اشعار بھی ہیں۔ان میں سے بعض یہ ہیں۔
اذا جن لیل ھام قلبی بذ کرکم انوح کما ناح الحام المطوق
وفوقی سحاب بمطر الھم والاسی وتحتی بحار الھوی تندفق
سلوا ام عمرو کیف بات اسیرھا تفک الا ساری دونہ وھو موثق
فلا ھو مقتول ففی القتل راحۃ ولا ھو ممنون علیہ فیطلق
یعنی جب رات پڑتی ہے تو میرا دل تمہاری یاد سے ھیران ہوجاتا ہے۔میں ایسی فریاد کرتا ہوں۔جس طرح کبوتری طوق دار چلاتی ہے۔میرے اوپر ایک بادل ہے،جو کہ غم و رنج کو برساتا ہےاور میرے نیچے عشق کے سمندر ہیں،جو کہ جوش مارتے ہیں۔ام عمر سے پوچھو کہ تمہارے قیدی عشق نے کیونکر رات کاٹی ہے۔اس کے سوا اور قیدیوں کی زنجیریں کھول دیں گئیں اور وہ بندھا ہے۔وہ مقتول بھی نہیں ہوا۔کیونکہ قتل میں راحت ہےاور نہ وہ ایسا ہے کہ اس پر احسان رکھ کر اس کو چھوڑدیاجائے۔بعض کہتے ہیں انہوں نے یہ اشعار قوال سے سنے تھےاور انہیں کے سننے سے وہ دنیا سے رحلت کر گئےتھے۔وہ رضی اللہ عنہ جمعرات کے دن ۲۲جمادی الاولیٰ ۵۷۸ھ میں فوت ہوئے ہیں۔
(نفحاتُ الاُنس)