حضرت ابوالقاسم ابراہیم بن محمد بن محمود نصر آبادی رحمتہ اللہ علیہ
منجملہ آئمہ ء متقدمین ، صوفیاء کے صف کے بہادر،عارفوں کے احوال کے معبر، حضرت ابوالقاسم ابراہیم بن محمد بن محمود نصر آبادی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ جس طرح نیشاپور میں خوارزم بادشاہ تھے اور شاہ پور میں تمویہ بادشاہ گزرے ہیں اسی طرح آپ نیشاپور میں بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ فرق یہ تھا کہ وہ دنیا کی عزت رکھتے تھے اور آپ آخرت کی عزت سے مالامال۔ آپ کا کلام انوکھا اور نشانیاں بہت ہیں۔ حضرت شبلی علیہ الرحمتہ کے مرید اور متأخرین اہل خراسان کے استاذ تھے۔ آپ اپنے زمانہ میں ہر فن میں اعلم واورع تھے۔
آپ کا ارشاد ہے:
"انت بین نسبتین نسبۃ الٰی آدم ونسبۃ الٰی الحق فاذا انتسبت الٰی آدم دخلت فی میادین المشھووات ومواضعالآفات والزالات وھی نسبۃ تحقق البشریۃ قال اللہ تعالے انہ کان ظلوما جھو لا واذانسبت الی الحق دخلت فی مقامات الکشف والبراھین والعصمہ والو لایۃ وھی نسبۃ تحقق العبود دیۃ قال اللہ تعالیٰ و عباد الرحمٰن الذین یمشون علی الارض ھوناً"
"تم دو نسبتوں کے درمیاں ہو۔ ایک نسبت حضرت آدم کی طرف ہے اور دوسری نسبت حق تعالیٰ کی طرف ہے۔ جب تم آدم کی طرف کی منسوب ہوتے ہو تو شہوت کے میدانوں میں اور آفت غلط جگہوں اور مقامات میں داخل ہوجاتے ہو۔ یہی وہ نسبت ہے جس سے تمہارا بشر ہونا ثابت ہے۔ اسی نسبت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ابن آدم بڑا جفا کار اور ناعاقبت اندیش واقع ہوا ہے ۔ " لیکن جب تم اپنی نسبت حق تعالیٰ سے کرتے ہو تو تم کشف وبراہین اور عصمت وولایت کے مقامات میں داخل ہوجاتے ہو۔ یہی وہ نسبت ہے جس سے حق تعالیٰ کی بندگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی نسبت کے اعتبار سے حق تعالیٰ نے فرمایا: " رحمٰن کے بندے زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔"
پہلی نسبت بشر کی ہے اور دوسری نسبت عبودیت کی۔ نسبت آدم تو قیامت میں منقطع ہوجائے گی ، البتہ! نسبت عبودیت ہمیشہ قائم ودائم رہے گی۔ اس میں تغیر وتبدل جائز نہیں رکھاگیا۔ جب اپنی نسبت کو اپنی طرف یا حضرت آدم علیہ السلام سے جوڑے تو اس کا کمال یہ ہے کہ وہ کہے:
"انی ظلمت نفسی"
"میں نے اپنی جان پر زیادتی کی"
اور جب اپنی نسبت حق تعالیٰ کی طرف کرتا ہے تو وہ بند اسی کا محل بن جاتا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
"یا عبادی لا خوف علیکم الیوم"
"اے میرے بندے آج تم پر کوئی خوف نہیں۔"