حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام
حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرۃ: ۳۰)
اور یاد کیجیے! جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: بے شک میں بنانے والا ہوں زمین میں (اپنا نائب)۔
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ھو آدم (سورۃ ص، جلالین)یاد کرو اس وقت کو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں ایک بشر کیچڑ سے بنانے والا ہوں اس سے مراد آدم علیہ السلام ہیں۔
آدم علیہ السلام کے قالب میں روح کا دخول: اللہ تعالیٰ نے روح کو حکم دیا کہ اس قالب میں داخل ہوجا اور تمام حصوں میں پھیل جا جب روح قالب کے پاس پہنچی تو جسم کو تنگ و تاریک پایا اندر جانے سے رک گئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ تب نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ قالب جگمگادیا گیا، یعنی وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی میں امانت رکھا گیا۔ اب روح آہستہ آہستہ داخل ہونے لگی ابھی سر میں تھی کہ آپ کو چھینک آئی اور زبان میں پہنچی تو آپ نے الحمدللہ پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابومحمد! (یہ اور ابوالبشر آپ علیہ السلام کی کنیت ہے) میں نے تمہیں اپنی حمد کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ جب روح کمر تک پہنچی تو آپ نے اٹھنا چاہا لیکن آپ گر پڑے کیونکہ روح ابھی نیچے والے حصہ میں نہیں پہنچی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:خلق الانسان من عجل (الانبیاء۳۷)
انسان جلد باز پیدا کیا گیا۔
پھر روح تمام جسم میں پھیل گئی تو آپ کو حکم ہوا کہ فرشتوں کو سلام کرو! آپ نے کہا: السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا وعلیکم السلام ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ ہی آپ کے لیے اور آپ کی اولاد کے لیے سلام کا طریقہ ہوگا۔ آپ نے عرض کیا میری اولاد کون سی ہوگی تو آپ کی تمام اولاد کو آپ کے سامنے کردیا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا پھر ان کی پیٹھ پر اپنا دست قدرت پھیر ا اور اپ کی اولاد کو نکال ظاہر کیا پھر فرمایا میں نے ان کو جنت کے لیے پیدا کیا اور یہ جنت والوں کا عمل کریں گے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت آپ کی پیٹھ پر پھیرا اور آپ کی باقی اولاد کو ظاہر فرمایا اور رب نے کہا کہ ان لوگوں کو میں نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں والے عمل کریں گے۔ (خازن، ج۱، ص۴۶، نعیمی ج۱، ص۲۵۰، ترمذی ابوداؤد، مشکوٰہ باب الایمان بالقدر ۲۱)
آدم علیہ السلام کے علوم: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰٓؤُ لَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (البقرۃ: ۳۱)
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔حضرت ابن عباس، عکرمہ، قتادہ، مجاہد اور ابن جبیر رضی اللہ عنہم کا ارشاد ہے:’’علمہ اسمآء جمیع الاشیاء حتی القصعۃ والقصیعۃ‘‘ (تفسیر ابی السعود ج۲، ص۸۴)اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے ناموں کا علم عطا کیا یہاں تک کہ بڑے اور چھوٹے پیالے کے نام بھی بتائے۔’’وقیل المراد بھا اسماء ما کان وما یکون الی یوم القیامۃ وعزی الی ابن عباس رضی اللہ عنہما‘‘ (روح المعانی ج۱، ص۲۲۷)
بعض حضرات نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف قول منسوب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ’’ماکان وما یکون‘‘ (جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونا ہے) کا علم عطا فرمایا۔پہلے معنی اور اس معنی کے لحاظ سے مقصد ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں اور ان کے ناموں کا علم عطا کردیا خواہ وہ پہلے پائی جا چکی ہیں یا بعد میں پایا جانا ہے۔’’وعلمہ أحوالھا وما یتعلق بھا من المنافع الدینیۃ والدنیویۃ‘‘ (البحر المحیط ج۱، ص۱۴۵)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے احوال اور ان سے دینی یا دنیوی منافع جو متعلق ہیں ان تمام کا علم عطا فرمادیا تھا۔ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام کو تمام زبانیں سکھادی گئیں، اور ایک قول کے مطابق آپ کو تمام ملائکہ کے ناموں سے آگاہ کردیا گیا، اور ایک قول کے مطابق آپ کو تمام ستاروں کے ناموں پر مطلع فرمادیا گیا تھا۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد حکیم ترمذی کا قول نقل کیا:
’’وھو انھا اسماء الاشیاء علویۃ او سفلیۃ جوھریۃ او عرضیۃ ویقال لھا اسماء اللہ تعالی عندھم باعتبار دلالتھا علیہ وظھور فیھا غیر متقید بھا‘‘ (روح المعانی ج۱، ۲۲۴)وہ اشیاء خواہ علوی ہوں یا سفلی جوہری ہوں یا عرضی، ان تمام کےا سماء کو اللہ تعالیٰ کے اسماء ہی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے ذات پر دلالت کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے جلوے تمام اشیاء سے ظاہر ہوتے ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ ان میں مقید نہیں ہوتا۔
فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کا حکم:آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دے رکھا تھا کہ تم نے میرے خلیفہ کے سامنے سجدہ کرنا ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد فرشتوں پر تمام چیزوں کو پیش کرکے ان کے نام پوچھے، جب فرشتوں نے اپنی عاجزی کا اظہار کردیا تو پھر آدم علیہ السلام سے پوچھا آپ نے تمام چیزوں کے نام بتادیے تو پھر حکم دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ اَبٰی واسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (البقرۃ ۳۴)
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو کہا آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا سوائے شیطان کے اس نے انکار کیا اور تکبر کیا او وہ کافروں سے ہوگیا۔
فرشتوں جو سجدۂ تعظیمی کا حکم دیا گیا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے آپ کے بھائیوں نے تعظیماً سجدہ کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں سجدہ تعظیمی حرام قرار دیا گیا عبادت کی غرض سے سجدہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی شریعت میں جائز نہیں رہا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’الفاء لافادۃ مسارعتھم فی الامتثال وعدم تشبطھم فیہ‘‘ (روح المعانی ج۱، ص۲۲۹)فسجدوا میں لفظ فاء سے یہ ثابت ہوا کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم ماننے میں جلدی کی کسی قسم کی تاخیر نہیں کی۔
تاہم پھر بھی سب سے پہلے سجدہ حضرت جبرائیل نے کیا پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر عزرائیل علیہم السلام نے پھر تمام فرشتوں نے اس لیے حضرت جبرائیل کو سب سے بڑا درجہ عطا کیا گیا یعنی انبیائے کرام علیہم السلام کی خدمت، ان کے پاس وحی لانے کا عظیم کام ان کے سپرد ہوا۔ (خزائن العرفان)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ سب سے پہلے سجدہ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے کیا اسی لیے اس کی پیشانی پر سارا قرآن لکھ دیا گیا۔ (روح البیان)
حضرت حوا کی پیدائش:جب حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور ابلیس انکار و تکرب کی وجہ سے مردود ہوگیا تو آدم علیہ السلام جو خاک سے پیدا ہوئے تھے آپ کا جنت میں کوئی ہم جنس نہ تھا کیونکہ فرشتے علیحدہ جنس تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر نیند کو مسلط کیا پھر آپ کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا اور اس کی جگہ گوشت رکھ دیا گیا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو آپ نے اپنے سر کے پاس حضرت حوا کو بیٹھے ہوئے پایا۔ پوچھا کہ کون ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں عورت ہوں، پھر آپ نے کہا تمہیں کیوں پیدا کیا گیا؟ تو انہوں نے عرض کیا تاکہ مجھ سے سکون حاصل کرو۔
فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے علم کا امتحان لینے کے لیے پوچھا یہ کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا یہ عورت ہے پھر انہوں نے پوچھا اسے امرأۃ (عورت) کیوں کہا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا چونکہ یہ مرأ (مرد) سے بنی ہے، پھر انہوں نے سوال کیا اس کا نام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حوا، پھرانہوں نے کہا اس کا نام حوا کیوں رکھا گیا؟’’قال انھا خلفت من شیء حی‘‘آپ نے فرمایا کہ زندہ چیز کو ’’حی ‘‘ کہا جاتا ہے یہ بھی زندہ سے پیدا ہوئی اس لیے اس کا نام حوا رکھا گیا۔ایک روایت کے مطابق حضرت حوا کی پیدائش فرشتوں کے سجدہ کے بعد جنت میں ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کا جسم زمین میں تیار کیا گیا اور اس میں روح کو داخل بھی زمین میں ہی کیا گیا اور حضرت حوا کی پیدائش بھی زمین پر ہی ہوئی پھر دونوں کو جنت میں لے جایا گیا۔ (از روح المعانی ج۱ ص۲۳۳، ۲۳۴)
حضرت آدم علیہ السلام کی شادی اور مہر:جب حضرت حوا کو پیدا کیا گیا تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی طرف میلان کرنا چاہا اور ارادہ سے فرمایا کہ دست محبت بڑھائیں تو فرشتوں نے کہا اے آدم ٹھہرجاؤ پہلے مہر ادا کردو آپ نے فرمایا:’’قد مھرھا قالوا حتی تصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔وہ مہر کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا مہر یہ ہے کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو۔ایک روایت میں تین دفعہ اور ایک میں سترہ مرتبہ درود پاک پڑھنے کا حکم دیا گیا یعنی اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ آدم علیہ السلام کا مہر یہی تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھیں آپ نے درود پڑھا اور فرشتوں کی گواہی سے نکاح ہوا۔
’’وفی ذلک اشارۃ الی انہ علیہ الصلوٰہ والسلام الواسطۃ لکل موجود حتی ابیہ آدم‘‘ (حاشیہ جلالین)اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر موجود چیز کے لیے وسیلہ ہیں یہاں تک کہ آپ اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی وفات:جب آدم علیہ السلام کا آخری وقت آیا تو آپ کو جنتی میوے کھانے کی خواہش ہوئی اپنے فرزندوں سے کہا کہ کعبہ معظمہ جاؤ اور وہاں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری یہ تمنا پوری کرے آدم علیہ السلام کے فرند یہ حکم پاکر وہاں پہنچے انہیں حضرت جبرائیل اور دوسرے فرشتے ملے جن سے انہوں نے آدم علیہ السلام کی فرمائش کا ذکر کیا، فرشتوں نے کہا ہمارے ساتھ آؤ ہم جنت کے میوے اپنے ساتھ لائے ہیں۔چنانچہ یہ سب آدم علیہ السلام کے پاس پہنچے، حضرت حوا ان فرشتوں کو دیکھ کر ڈرنے لگیں اور چاہا کہ آدم علیہ السلام کے دامن میں چھپ جائیں انہوں نے فرمایا کہ حوا اب تم مجھ سے الگ رہو میرے اور رب کے قاصدوں کے درمیان آڑ نہ بنو، اس طرح فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کرلی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تجہیز و تکفین فرشتوں نے کی:
فرشتوں نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کو کہا جس طرح ہم تمہارے باپ کا کفن و دفن کریں گے اسی طرح تم فوت ہونے والے لوگوں کا کفن و دفن کرنا۔
جبرائیل علیہ السلام جنت کی مرکب خوشبو اور جنتی جوڑے کا کفن اور جنتی بیری کے کچھ پتے اپنے ساتھ لائے تھے ان کو خود غسل دیا اور کفن پہنایا اور خوشبو ملی اور ملائکہ ان کا جسم مبارک کعبہ میں لائے اور ان پر سارے فرشتوں نے نماز جنازہ ادا کی جس میں حضرت جبرائیل امام تھے اور سارے فرشتے مقتدی، اس نماز میں چار تکبیریں کہیں جیسے کہ آج ہوتی ہیں، پھر مکہ معظّمہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام منی میں لے گئے جہاں کہ حاجی قربانی کرتے ہیں اور اسی جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کی قربانی کی، وہاں مسجد خیف کے قریب بغلی قبر کھود کر ان کو دفن کرکے ان کی قبر کو اونٹ کے کوہان کی ڈھلوان بنایا۔
حضرت حوا علیہا السلام کی قبر ’’جدہ‘‘ میں ہے، بعض روایات کے مطابق دونوں کی قبریں حرم میں طواف کی جگہ میں ہیں۔ (از تفسیر عزیزی، تفسیر نعیمی ج اول)
ماخذومراجع: تذکرۃ الانبیاء