حضرت احمد خضرویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ابوحامد حضرت احمد خضرویہ بلخ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ خراسان کے معتبر مشائخ اور کاملانِ طریقت میں سے تھے۔ آپ سلطان ولایت اور صاحبِ تصانیف بزرگوں میں سے تھے۔ آپ کے مریدوں میں ہزار ایسے ہوئے ہیں جو کمالِ ولایت پر پہنچے اور حضرت حاتم اصم کے خلیفہ اوّل تھے۔ ابوتراب سلطان ابراہیم ادھم، شیخ بایزید بسطامی اور ابوخفص رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی مجالس میں بیٹھا کرتے۔ آپ عام طور پر سپاہیانہ لباس زیب تن فرمایا کرتے۔ آپ کی اہلیہ حضرت بی بی فاطمہ آیات الٰہیہ میں سے ایک نشانی تھیں آپ کے والد مکرم امرائے بلخ میں سے معروف تھے جب فاطمہ بالغ ہوئیں تو انہوں نے شیخ احمد کو پیغام بھیجا کہ وہ ان کے والد سے رشتہ طلب کریں لیکن احدم نے یہ بات قبول نہ کی، پھر دوسری بار پیغام بھیجا کہ میں آپ کو اپنا رہبر تصور کرتی ہوں لہٰذا یہ کام کرنا نہایت ضروری ہے حضرت احمد نے مجبوراً کسی کو بھیجا۔ اور ان کے والد سے رشتہ طلب کیا جس نے بخوشی قبول کرلیا۔ اس طرح اپنی بیٹی کو حضرت احمد خضرویہ کے نکاح میں دے دیا۔ فاطمہ نے نکاح کے بعد دنیا کی مصروفیات کو ترک کرتے ہوئے صرف احمد سے عزلت گزینی اختیار کرلی۔
ایک بار حضرت احمد خضرویہ حضرت بایزید بسطامی کی زیارت کو گئے۔ فاطمہ بھی آپ کے ساتھ گئیں۔ جب بایزید کی مجلس میں پہنچیں، اپنے منہ سے نقاب اٹھالیا۔ اور حضرت بایزید سے بے تکلفانہ گفتگو کرنے لگی۔ احمد کو یہ بات ناگوار گزری اور کہا فاطمہ بزرگوں سے یوں بے تکلفانہ گفتگو گستاخی خیال کی جاتی ہے۔ فاطمہ نے کہا تم میری طبیعت کے محرم ہو۔ وہ میری طریقت کے محرم ہیں تمہیں تو اپنی محبت سے ملتی ہوں اور انہیں اللہ کی محبت میں ملتی ہوں وہ میری محبت سے بے نیاز ہیں اور تم میری محبت کے مشتاق رہتے ہو۔ فاطمہ ہمیشہ حضرت بایزید سے گستاخی سے پیش آیا کرتیں۔ ایک دن بایزید کی نگاہ فاطمہ کے ہاتھ پر پڑی تو ان پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ حضرت بایزید نے پوچھا یہ مہندی تم نے کیوں لگائی ہوئی ہے۔ فاطمہ نے کہا: بایزید! جب تک تم نے میرے ہاتھ کی مہندی نہیں دیکھی تھی۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوتی تھی۔ اب تمہاری نگاہ میرے ہاتھ کی مہندی پر پڑی ہے اب میرا ملنا حرام ہے۔
ایک رات آپ کے گھر میں ایک چور گھس آیا، سارا گھر چھان مارا، کچھ نہ ملا، آپ اس وقت جاگ رہے تھے۔ آواز دی بھائی! یہ ڈول اٹھاکر کنویں سے پانی لاؤ، اور وضو کرکے نماز پڑھو۔ صبح خالی ہاتھ نہیں جاؤ گے۔ میں تمہیں کچھ دوں گا چور نے سوچا، چلو آج یونہی کما کر دیکھ لیں۔ حسب الحکم ایسا ہی کیا۔ حضرت سو دینار کی تھیلی لائے اور چور کے سامنے رکھی۔ اور فرمایا: تمہاری آج کی رات کی عبادت کی یہ مزدوری ہے یہ سن کر چور کے دل میں رقت طاری ہوگئی۔ کہنے لگا: اب میں کچھ نہیں لوں گا مجھے صرف اللہ کا راستہ دکھائیں کیونکہ میں ابدی دولت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ شیخ نے اسے مرید بنالیا اور وقت کے اولیاء کی صف میں لا کھڑا کیا۔
سفر کے دوران حضرت احمد خضرویہ ایک بہت بڑی خانقاہ میں پہنچے۔ چونکہ آپ سپاہیانہ لباس پہنتے تھے۔ کسی نے آپ کو نہ پہچانا، چند دن وہاں قیام فرمایا۔ صوفیوں نے اپنے پیر سے احتجاج کیا کہ اس سپاہی کو اب یہاں سے چلتا کرنا چاہیے۔ یہ نہ صوفی ہے نہ درویش، اور خانقاہیں ایسے لوگوں کے لیے نہیں ہوتیں۔ پیرازراۂ مروت آپ کو کچھ نہ کہتے۔ اتفاقاً حضرت احمد ایک دن کنویں سے پانی نکال رہے تھے۔ ڈول کنویں میں جاگرا۔ درویشوں اور صوفیوں نے آپ کو لعن طعن کیا۔ آپ خانقاہ کے پیر کے پاس گئے، اور فرمانے لگے آپ سورۂ فاتحہ پڑھیں تاکہ کنویں سے ڈول نکل آئے۔ شیخ سوچنے لگے کہ فاتحہ سے ڈول نکل سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر آپ متوقف اور متردد ہیں تو میں پڑھتا ہوں۔ پیر نے اجازت دی۔ جب آپ نے اجازت پالی۔ ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔ کنویں کے پانی میں جوش آیا۔ وہ کنویں کے کناروں تک آپہنچا۔ ڈول اٹھا لیا گیا۔ پیر نے اپنی ٹوپی اتار کر آپ کے قدموں میں رکھ دی اور پوچھا سچ بتاؤ تم کون ہو کہ میرا سارا کمال تمہارے فرض کمال کے سامنے ایک دانے کی حقیقت رکھتا ہے۔ حضرت شیخ احمد نے فرمایا: اپنے مریدوں کو فرمادیجیے کہ مسافروں کو بچشم حقارت نہ دیکھا کریں۔ وہاں سے روانہ ہوکر اپنی منزل کی طرف بڑھے۔
خاکساراں جہاں را بحقارت منگر
توچہ دانی کہ درین گر د سوارے باشد
ایک دن حضرت خواجہ احمد کے ہاں ایک درویش بطور مہمان آیا۔ آپ نے ستر شمعیں روشن کیں درویش نے کہا: حضرت مجھے یہ تکلفات اور اصراف پسند نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان تمام شمعوں کو میں نے اللہ کے لیے روشن کیا ہے کسی ایک کو گل کرو، درویش ساری رات پانی اور ریت لے کر کوشش کرتا رہا کہ ایک شمع کو بجھا سکے۔ مگر ایک کے گل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوئے۔
اگر گیتی سرا سر باد گیرو
چراغِ مقبلاں ہرگز نہ نمیرد
شیخ کی وفات کے دن قریب آئے۔ تو آپ کے پاس ستر ہزار درہم موجود تھے۔ آپ نے غربا و مساکین کو بلایا اور سب کے سب بانٹ دیے۔ حالت نزع میں آپ کے قرض خواہ جمع ہوئے۔ اور اپنے قرضہ کا مطالبہ کرنے لگے۔ شیخ احمد نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ مجھے ان قرض خواہوں سے نجات دے۔ میری جان انہوں نے گروی کرلی ہے۔ یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اور اس نے آواز دی کہ حضرت کے تمام قرض خواہ آجائیں۔ یہ لوگ باہر آئے اس شخص نے ہر ایک کو قرض ادا کرنا شروع کردیا۔ جب تمام قرض خواہوں کا حساب بے باق ہوگیا۔ تو اندر حضرت خواجہ احمد نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
آپ دو صد چالیس ہجری میں فوت ہوئے۔
شیخ احمد شہ خراسانی
سالِ ترحیل وے ندا آمد
ذات پاکش سعید و اَسعد بود
اے بگو قطب دین احمد بُود
قطب کامل(۲۴۰)۔ واقف احمد(۲۴۰)۔ زاہد حق بیں (۲۴۰)سے بھی سن تاریخ برآمد ہوتا ہے۔
(خزینۃ الاصفیاء)