میاں محمد حسین قادری نقشبندی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1300 | محرم الحرام | 09 |
یوم وصال | 1378 | جمادى الآخر | 16 |
میاں محمد حسین قادری نقشبندی (تذکرہ / سوانح)
زبدۃ السالکین الحاج میاں محمد حسین قادری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
زبدۃ الاصفیاء حضرت الحاج میں محمد حسین قادری نقشبندی ابن کرم الٰہی رحمہا اللہ تعالیٰ)۹؍محرم الحرام،۲۰نومبر بروز سہ شنبہ(۱۳۰۰ھ؍۱۸۸۲ئ) موضع جھگیاں ناگردہ مضافات لاہور میں پیدا ہوئے،والد ماجد نے ہوش سنبھالنے پر تعمیر سیرت پر پوری توجہ دی، ایک دن میاں محمد حسین کپاس کا پھول توڑ لائے،والد گرامی کو پتہ چلا تو خوب تواضع کی اور زمیند ار کے پاس جا کر فرمایا اس بچے نے تمہارے کھیت سے ایک پھور توڑلیا ہے،اب تمہاری مرضی ہے چاہو تو قیمت لے لو اور چا ہو تو معاف کردو۔ میں صاحب فرمایا کرتے تھے مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد مجھ سے کوئی اسی حرکت سرزد ہوئی ہو قرآن مجید والد ماجد سے پڑھا اور قصبہ ڈھولن وال میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد حضرت پیر عبد الغفار شاہ قدس سرہ ’’حامی اشاعت درود شریف‘‘امام مسجد تکیہ سادھواںکے حلقۂ درس میں شامل ہوئے اور فارسی کی مروجہ کتب گلستاں،بوستاں وغیرہ پڑھیں،اس کے بعد حضرت مولانا حافظ فتح محمد بانی جامعہ فتحیہ اچھرہ(لاہور) کی خدمت میں حاضر ہو کر تین سال تک کسب فیض کیا اور مالابدمنہ مفتاح الصلوٰۃ،اخلاق جلالی اور زیلخا جامی وغیرہ کتابیں پڑھیں،ان کے زہد و اتقاء اور اتباع شریعت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے ست اقدس پر بیعت ہوئے۔ طلب علم کے ساتھ ساتھ مجاہدات میں مصروف رہے اور سلوک و عرفان کی منزلیں طے کیں۔میاں محمد حسین رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنے مرشد کامل سے والہانہ محبت تھی، ان کے ارشادات کو تمام عمر حرزجاں بنائے رکھا۔
ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا مفتی عبد العزیز خطیب جنازہ گاہ مرتگ (لاہور) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قدوری،منتیہ المصلی،کنز الدقائق، شرح وقایہ اور تفسیر حسینی وغیرہ کتب پر عبور حاصل کیا،مولانا نور الدین ابن مولانا غلام قادر شائق (رحمہا اللہ تعالیٰ) اونچی مسجد پاپڑ منڈی(اندرون شاہ عالم مارکیٹ) سے فن خوشنویسی حاسل کیا اور اس فن لطیف میں صاحب کمال ہوئے۔
حضرت میاں محمد حسین رحمہ اللہ تعالیٰ قریباً بیس سال تک اچھرہ میں مختلف بھٹوں پر منشی گیری کرتے رہے پھر ملازمت کو چھوڑکر علوم دینیہ کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔یہ مشغلہ آخر تک جاری رہا۔آپ کو اولیاء کرام سے بے پناہ عقیدت تھی، دوردراز کا سفر طے کر کے ان کی زیارت سے مشرف ہوتے۔کتب دینیہ میں سے کتب تصوف سے خاص لگائو رکھتے تھے،لباس اور خوراک میں سادگی پسند تھے۔ہر کام میں سنت مبارکہ کی پیروی کو پیش نظر رکھتے،غیر مشروع اور قبیح رسوم سے سخت متنفر تھے اور ان کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح کوشش فرماتے،صبح سے شام تک ذکر و فکر میں مصرور رہتے،جسمانی اور روحانی امراض کے مریض آپ کی توجہ،دعا اور دم سے بفضلہ تعالیٰ شفایاب ہو جاتے۔۱۹۴۷ء میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے،واپسی پر پیٹ کا تکلیف کا عارضہ لاحق ہوا جو آخر تک دورنہ ہوا۔
حضرت میاں محمد حسین رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۶؍جمادی الاخریٰ ،۲۸دسمبر (۱۳۷۸؍۱۹۵۸ئ) رات کو ساڑھے بارہ بجے راہئی دار آخرت ہوئے۔موضع جھگیاں ناگرہ ڈاک خانہ ڈھولن وال،ملتان روڈ (لاہور) کی مسجد میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔ہرسال ۱۶ جمادی الاخریٰ کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں وعـظ نصیحت کے علاوہ ایصل ثواب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مولانا پیر غلام دستگیر نامی نے تاریخ وفات کہی ہے ؎
تھے نام محمد سے حسین ایک جو موسوم
دل جن کا تھا اللہ کے اذکار سے مشحون
مسجد ہی میں مشغول عبادت رہے تا عمر
جاں دے کے ہوئے گوشۂ مسجد میں وہ مدفون
نامی نے کہ سر انکار یہ تاریخ
’’حاجی ہوئے مغفور‘‘ سنو عالم مخزون ۱۔۱۳۷۸ھ[1]
حضرت میاں صاحب سے تین فرزند یادگار ہیں:۔
۱۔ جناب حکیم محمد اکرم صاحب۔
۲۔ جناب الحاج محمد اعظم خوشنویس۔
۳۔ ہمارے کرم فرما،صاحب علم و ادب محمد عالم مختار حق مدظلہٗ
حضرت میاں صاحب کے صاحبزادگان نے نقوش جمیل کے نام سے اپنے والد گرامی کے مختصر حالات شائع کردئے ہیں۔
[1] محمد عالم مختار حق: نقوش جمیل،مطبوعہ ۱۹۵۹ء
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)