حضرت الحاج مولانا عبدالجامع جامی صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
الحاج مولانا محمد عبدالجامع جامی، مولوی حاجی عبدالقدیر صدیقی قادری کے اکلوتے فرزند تھے۔ ۲ ریبع الآخر ۱۲۹۷ھ/۱۴،مارچ ۱۸۸۰ء بروز اتوار محلہ سوتھ بدایوں (یوپی ، انڈیا) میں تولد ہوئے۔ حاجی عبدلقدیر، شیخ طریقت حضرت سید شاہ آل رسول احمدی برکاتی قادری (متوفی ۱۲۹۶ھ مارہرہ شریف) سے دست بیعت تھے۔ جامی کا سلسلہ نسب حضرت عبدالرحمن بن حضرت امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے ملتا ہے۔ ان کے مورث اعلیٰ شیخ عبداللہ مکی علیہ الرحمۃ مکمہ معظمہ سے نقل مکانی کرکے ہرات ہوتے ہوئے بعہد سلطنت سلطان شمس الدین التمش ۶۱۰ھ کو ہندوستان پہنچتے اور بدایوں میں اقامت گزیں ہوئے۔ ان کے ورود ہند کی تاریخ لفظ ’’قریش‘‘(۶۱۰ھ) سے برآمد ہوتی ہے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم گھر پو ہوئی۔ آٹھویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول بدایوں میں ہوئی انگریزی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے مولانا ریاض الدین احمد فرشوری سے فارسی کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد حضرت مولانا سید یونس علی محدث بدایونی قدس سرہٗ (متوفی ۱۹۴۰ئ) کے دامن تلمذ سے وابستہ رہ کر درس نظامی کی تکمیل کی۔ آپ نے استاد محترم کے انتقال پر قطعہ تاریخ وصال کہا:
جنید عصر و شبلی زمانہ
جناب مولوی یونس علی تھے
بظاہر عالم و فاضل محدث
بباطن مولوی معنوی تھے
مجھے بھی فیض کا حصہ ملا تھا
بحمد اللہ مرے استاد بھی تھے
ادب کے ساتھ لکھ تاریخ جامی
ولی تھے مولوی تھے متقی تھے
۷+۱۹۳۳=۱۹۴۰ء
شاعری میں حضرت مولانا احسن مارہروی جانشین حضرت داغ دہلوی سے شرف تلمذ رکھتے تھے۔
شادی و اولاد:
آپ نے بدایوں مین اٹھارہ سال کی عمر میں انیس فاطمہ بنت مولوی قمر الدین احمد فرشوری سے شادی کی۔ اولاد میں ایک لڑکی اور دو لڑکے تولد ہوئے
۱۔ محمد عبدالنافع کیفی کراچی متوفی نومبر ۱۹۷۲ء
عبدالرشید صدیقی عرف عتیق
عبدالقدیر صدیقی عرف فیض (دونوں کیفی مرحوم کے لڑکے ہیں)
۲ عبدالشافع ادیب
۳۔ عروجہ خاتون
بدایوں سے پاکستان:
اہلیہ کے انتقال کے چند سال بعد ۱۹۶۰ء کو اپنے سب متعلقین (خاندان) کے ساتھ بدایوں سے پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر مسکن بنایا۔ آپ آسودہ حال زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ تجارت و ملازمت سے کبھی سروکار نہ رہا۔ آبائی جائیداد فارغ البالی کے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے کافی تھی۔
بیعت:
نوجوانی میں سلسلہ چشتیہ میں حضرت سید شاہ مہدی حسن عرف مہدی میاں کے والد بزرگوار حضرت سید شاہ ظہور حسین عرف چھٹو میاں خلف اصغر حضرت شیخ طعیقت سید شاہ اال رسول احمدی سے دست بیعت ہوئے۔اور ان کے بعد سلسلہ قادریہ برکاتیہ میںحضرت سید شاہ ابو الحسنین احمد نوری المعروف میاں صاحب قبلہ سے دست بیعت ہوئے جو کہ چھٹو میاں صاحب کے داماد اور سگے بڑے بھائی کے واحد فرزند تھے۔
عادات و خصائل:
عقیدتاً سنی حنفی اور مشربا قادری چشتی تھے۔ ایک متشرع دیندار، خلیق، باوضع، منکسر المزاج اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا ظاہر اتباع نبوی سے آراتہ اور باطن عشق رسول ﷺ سے پیراستہ تھا۔ نماز باجماعت کے پابند اور نہایت خوش اوقات تھے۔ ب بزرگان دین اور والیائے امت علی الخصوص پیر ان مارہرہ سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے ربیع الاول شریف کے مہینے میں محافل میلاد مصطفیﷺ اور گیارہ ربیع الاخر کو حضرت غوث پاک جیلانی کی نیاز کا نہایت خلوص کے ساتھ اعلیٰ پیمانے پر انتظام کرتے اور بہت سے بزرگان دین کے یوم وصال پر ہمیشہ بڑے اہتمام سے فاتحہ کراتے تھے۔
جناب رئیس امروہوی رقمطراز ہیں:
’’مولانا جامی بدایونی علیہ الرحمۃ کا شمار ان اکابر ملت میں ہوتا ہے جن کا روحانی رتبہ اور شعری عظمت مسلم ہے۔ مرحوم عربی و فارسی کے عالم، تاریخ اسلام کے مفکر، رموز قرآنی کے عارف اور علم و عرفان کے یکتا نمونہ تھے۔ شریعت و طریقت کے اسرار و معارف سے ان کا سینہ لبریز تھا۔‘‘
شہید بدایونی لکھتے ہیں:
’’آپ ذاتی کردار کے لحاظ سے بزرگان کے اخلاق اور شریفانہ وضعداری کا نمونہ تھے۔ بڑوں کا احترام معاصرین و احباب کے ساتھ خلوص ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ان کا شعار زندگی تھا۔ (تذکرۂ شعرائے بدایوں، جلد اول ص۳۲۳، مطبوعہ کراچی ۱۹۸۷ئ)
سفر حرمین شریفین:
۱۳۲۵ھ/۱۹۰۸ء کو اپنے والد محترم کے ہمراہ جوانی میں ہی حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول ﷺ کی سعادت ابدی حاصل کی۔
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں کا حلقہ ہندوستان و پاکستان میں پھیلا ہوا ہے، ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
مصطفی بخش فائق بدایونی، اخت غزنوی بدایونی مرحوم، منور بدایونی کراچی۔ مرحوم، نصرت بدایونی، دلاور فگار بدایونی کراچی، اور منشی رونق علی رونق بدایونی وغیرہ۔ رونق بدایونی بدایوں کے شعری و ادبی حلقوں کے روح رواں ہیں۔ ان کا حلقہ تلامذہ وسیع ہے۔ بدایوں میں اکثر شعراء انہیں سے مشاورت سختن کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک ادبی تنظیم ’’بزم جامی‘‘ بدایوں میں قائم کی ہے جس کی طر ف سے پابندی کے ساتھ مشاعرے منعقد ہوتے ہیں اور ایک تذکرہ ’’میخانہ جامی‘‘ شائع کیا ہے جو سلسلہ جامی سے منسلک شعراء کے حالات پر مشتمل ہے۔
تصنیف و تالیف:
اس شعبہ میں آپ نے منظوم کام کیا۔ آپ کی شاعری کا بڑا حصہ نعت اور منقبت پر مشتمل ہے۔
٭ زاد آخرت ، مرتبہ قدیر صدیقی، مطبوعہ کراچی ۱۹۹۱ء
اس مجموعے می نحمد کے بعد نعتیہ غزلیں ہیں۔ پھر قصیدے، خمسے، نظمیں ، مناجات اور رباعیات وغیرہ ہیں۔
شاعری:
ڈاکٹر فرمان علی فتح پوری آپ کی شاعری کے متعلق اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں :
’’جامی بدایو نی کے یہاں سیرت محمد ی اور شمائل نبوی کے بیان میں جو لطافت و حلاوت درآئی ہے وہ تو اپنی جگہ ان کے کمالات فن کا حیرت انگیز اظہار ہے ہی لیکن اس اظہار میں محبت کی جو تڑپ، روح کی جو نے چینی ، دل و نظر کی جو وارفتگی ، طبیعت کی جو عاجزی و فتادگی ، جسم وجاں کی جو سپردگی ، احساس ذات کی گمشدگی اور لب و لہجے کی جو شائستگی و پاکیز گی نظر آتی ہے وہ کی ایسی انفرادیت ہے جو حضور ﷺ کی ذات گرامی سے والہانہ شیفتگی و توفیق الہی کے بغیر آدمی کو میسر نہیں آتی ‘‘۔
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی (کراچی ) لکھتے ہیں :
’’ان کے رب نے ان کی ذات میں کئی شخصیتیں جمع فرما دی تھیں ۔ وہ عالم تھے صاحب تقویٰ مسلمان تھے ، اچھے شاعر تھے ۔ ان کے عشق رسول اور شاعر ی کے ذوق نے ان کی نعت گوئی میں اپنا اظہار پایا‘‘۔
انتخاب کلام :
بزم جہاں میں بادہ اطہر کی ہے تلاش
یعنی نگاہ قاسم کوثر کی ہے تلاش
ان کا جمال دیکھ کر بند ہو چشم شوق اگر
سوئیں صباح حشر تک چین سے ہم مزار میں
شب معراج بے پردہ ہوئیں اللہ سے باتیں
مگر وہ کیا ہوئیں کیسے ہوئیں پردہ ہی پردا ہے
تمہاری غیب دانی بخشش علم الہی ہے
تمہیں معلوم ہے ہر بات پوشیدہ زمانے کی
اس لئے آپ ہوئے شکل بشر میں ظاہر
قسمت خاک میں تھا نور کا پیکر ہونا
کفن پہناو تو خاک مدینہ رخ پہ مل دینا
یہی بس ایک صورت ہے خدا کو منہ دکھانے کی
رچی عالم شادی ، مچی ہیں دھومیں زمین پر اور آسماں پر
مکین عالم شہ دو عالم ، مکاں سے پہنچے میں لامکاں پر
تھی محفل توحید وہاں، ذکر دوئی کیا
انوار تھے انوار کے مہماں شب معراج
علیم و عالم علم لدنی نام کے امی
خبردار حقیقت، مخبر سادق خبر آئے
ثانی ہے کہاں کوئی سلطان رسالت کا
ساقی بھی یگانہ ہے مے خانہ وحدت کا
نبی اور یاران نبی میں فرق ہے اتنا
نبی اللہ کے نائب ہیں ، یہ نائب نبی کے ہیں
علاقہ قطبیت کا ، غوثیت کا ، کاملیت کا
بہ فضل حضرت باری بنام غوث اعظم کا
وصال :مولانا محمد عبدالجامع جامی صدیقی ۱۹، ذوالحجہ ۱۳۸۴ھ؍۲۲اپریل ۱۹۶۵ء بروز بوقت بعمر ۸۵ سال و اصل بحق ہو ئے ۔ غالبا مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی نے جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ لیاقت آباد بی ایریا قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ جناب محمد ابرار علی صدیقی بدایونی نے قطعہ تاریخ وصال کہا:
ہوئے مرحوم حضرت جامی
مل گیا ہے وصال حق ان کو
فکر تاریخ ارتحال ہے کیا
برملا مہر مغفرت دیکھو
۱۹۶۵ء
[محترم الحاھ شمیم الدین صاحب کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے زاد آخرت اور تزکرہ شعرائے بدایوں برائے مطالعہ فراہم کی، جس سے حالات ترتیب دیئے گئے۔]
جاتی کے قاضی علماء
جاتی کے قاضی (مفتی )علماء کی دینی علمی ادبی اور فکری خدمات ہیں ۔ انہوں نے اپنے دور میں اسلام و سنیت کی تحریری تدریسی اور عدل و انصاف کے ذریعے عظیم خدمات سر انجام دی ہیں جو کہ اپنوں کی غفلت کی وجہ سے تاریخ کا حصہ نہ بن سکیں ۔ یہ قاضی حضرات کلہوڑ ا قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اصل میں حیدر آباد کے رہائشی تھے ۔ مغل دور حکومت تا میروں کے دور حکومت تک حیدرآباد میں مسد قضا ء پر فائز المرام رہے ۔ اس کے بعد مختلف مقامات پر نقل مکانی کرتے ہوئے بالآخر جاتی میں آکر مستقل رہائش اختیار کی ۔
جہاں بھی رہے درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔ قال اللہ و قال الرسول کی مجالس بر پا کر تے رہے ۔ قاضی علماء نہ فقط قاضی تھے بلکہ اپنے دور کے بہترین خوش خط بھی تھے اس کے علاوہ نادرو نایاب قلمی و مخطوطات پر مشتمل کتب خانہ بھی رکھتے تھے جو کہ دستبر د زمانہ کے زد میں آگیا اور ضائع ہو گیا ۔ اس خاندان کی مستورات کا پردہ ضرب المثل ہے ۔
۱۔مولانا قاضی محمد اکبر
قاضی محمد اکبر بن عبداللطیف بن ضیاء الدین کلہوڑو عالم باعمل شخصیت کے حامل بزرگ تھے ۔ میر نصیر الدین خان ٹامپر حاکم حیدرآباد کے دور میں مسند قضاء (جج ) پر فائز تھے ۔قاضی کے علاوہ بہترین خوش نویس (کاتب ) بھی تھے ۔ میر نصیرالدین خان کے کہنے پر مشہور تاریخی کتاب ’’حبیب السیر ‘‘۱۱۹۶ھ کو تین جلدوں میں نقل کیا ۔ اس کے علاوہ ’’تاریخ خاقانی منظور ‘‘ اور دیگر نایاب کتب کو انہوں نے اپنے قلم سے نقل کیں ۔ تاریخ وفات معلام نہ ہو سکی البتہ گنجوٹکر (ضلع حیدرآباد) کے قبرستان میں آپ کا مزار واقع ہے ۔
۲۔ قاضی محمد منٹھار
ایک متقی عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے ۔ بتاتے ہیں کہ ایک بار ان پر فنائیت کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جس سے دنیا جز ہے کہ مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے سجدہ میں چلے گئے اور ایسا چلے گئے کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں بالااخر لوگوں نے اٹھا کر مسجد شریف کے ایک کونے میں رکھ دیا جہاں انہیں بحالت سجدہ چھ ماہ گزرگئے ۔ چھ ماہ کے بعد آپ کی کیفیت پوری ہوئی تو نماز سے باہر آئے لیکن فنافی اللہ کے مقام پر فائز ہونے کے چند روز بعد آپ نے انتقال کیا ۔ آپ کا مزار شریف سیرانی ضلع بدین میں واقع ہے ۔
۳۔قاضی گل محمد
بہترین خطاط اور نامور عالم و فاضل تھے ۔ تاریخ ’’روضۃالشھداء ‘‘ فارسی کا نقل ۱۲۵۰ ھ کو تیار کیا ۔ اس کے علاوہ بھی علمی ادبی اور فکری کاوشیں ہو ں گی لیکن اپنوں کی عدم الچسپی اور تاریخی اہمیت سے غفلت کی وجہ سے محفوظ نہ ہو سکیں ۔ آپ کا مزار مبارک شاہ بندر کے پر انہ مقام ’’دیرہ پرانہ ‘‘ میں واقع ہے ۔
۴۔ قاضی کمال الدین
ایک عالم دین و شاعر تھے ۔ آپ کی ذہنی تخلیقات میں سے ایک کتاب محفوظ ہے ۔ شیخ سلامت اللہ فاروقی قادری المعروف شیخ مغل (متوفی ۶۰۱ھ) کی درگاہ شریف جاتی (ضلع ٹھٹھہ ) میں قائم اورمرجع خلائق ہے ۔ آپ کی ملفوظات ’’مقصود العارفین ‘‘ جس کو آپ کے خلیفہ مخدوم آری نے فارسی میں قلمبند کیا تھا ۔ قاضی کمال الدین نے مقصودالعارفین کا ۱۲۸۶ھ کو سندھی نظم میں منتقل کیا اور اس کا نام ’’مقصود العاشقین ‘‘ تجویز کیا ۔ آپ کا مزار شریف درگاہ شیخ مغل کے متصل قبرستان میں ہے۔
۵۔قاضی محمد بلال
مولانا قاضی محمد بلال بن قاضی گل محمد اپنے سلف کی طرح علم و ادب کے پیکر تھے ۔ مشہور بزرگ و صو فی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی کتاب ’’شاہ جو رسالو ‘‘ پر دسترس رکھتے تھے ۔ فارسی میں شاعری بھی آپ کی یاد گار ہے ۔ غالبا۹۵؍۱۹۹۴ء کو انتقال کیا ۔ شاہ بندر کے پرانہ مقام ’’دیرہ پرانہ کے قبرستان میں مزار واقع ہے ۔
۶۔ قاضی محمد سعید
ایک مانے ہوئے عالم دین ، اچھے اوصاف کے مالک اور عظیم خطاط تھے ۔ آپ کا مزار حضرت شیخ مغل کے متصل قبرستان میں واقع ہے۔
۷۔قاضی عبدالکریم
مولانا قاضی عبدالکریم بن قاضی محمد سعید ۱۸۸۲ء کو جاتی شہر میں تولد ہوئے ۔ تعلیم و تربیت اپنے والد محترم سے حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے ۔صاحب علم و فضل کے علاوہ خوش مزاج انسان تھے ۔ تحریک خلافت میں بھی کام کیا لیکن زندگی نے وفانہ کی اور جلد ۱۹۲۵ء کو ۴۳ سال کی عمر میں انتقال کیا ۔
آپ کا مزار اپنے والد ماجد کے برابر میں درگاہ شیخ مغل تحصیل جاتی میں واقع ہے۔
[محترم حافظ حبیب سندھی (چوہڑ جمالی ) کے مضمون ‘‘جاتی کے قاضی خاندان کی علمی خدمات ( سندھی ) مطبوعہ مجلہ ’’سندھ‘‘ (سندھی ) حیدرآباد مئی ۱۹۹۲ء سے ماخوذہے ]
مولانا جمال الدین ابڑو
مولانا جمال الدین بن مولانا مفتی ابوالجمال خدا بخش ابڑو، گوٹھ ملا ابڑو ، اسٹیشن مشوری شریف ضلع لاڑکانہ میں ۱۹۰۹ ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
اول تا آخر تعلیم مدرسہ الفیض سو نہ جتوئی ضلع لاڑکانہ میں صدر العلماء سرتاج الفقہاء علامہ مفتی ابوا لفیض غلام عمر جتوئی قادری قدس سرہسے حاصل کی۔
بیعت :
حضرت سید غلام تضی شاہ جیلانی (درگاہ جیلانیہ گمبٹ ضلع خیر پور میرس ) سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔
شروع میں رئیس گل محمد مگسی کے گوٹھ نزد سر ہاری ضلع سانگھڑ میں پندرہ (۱۵ ) سال درس دیا ۔ اس کے بعد درگاہ مرتضائیہ جیلانیہ گمبٹ (ضلع خیر پور میرس ) میں امام و مدرس کے فرائض انجام دئیے ۔ آخر میں گوٹھ واپس آکر ملا ابڑا کی درسگاہ دارالسعادات میں درس دیا ۔
وصال:
مولانا جمال الدین ابڑو نے ۱۹۸۴ء کو انتقال کیا اور تاج السالکین شیخ بریقت مولانا میاں علی محمد مشوریؒ سجادہ نشین اول مشوری شریف نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)