علی اصغر سید قادری جیلانی
علی اصغر سید قادری جیلانی (تذکرہ / سوانح)
علی اصغر سید قادری جیلانی علیہ الرحمۃ
ف ۱۲۰۰ھ
آپ حضرت غوث محی الدین جیلانی رحمہ اللہ کی اولاد سے ہیں۔ علی اصغر بن فتح محمد شاہ جیلانی بن نور محمد شاہ جیلانی بن سید اسماعیل شاہ جیلانی بن شیخ سید شیخ ابو الوفا قادری شیخ سید شہاب الدین بن سید شیخ بدر الدین بن سید شیخ علاؤ الدین بن شیخ سید چراغ الدین بن شیخ سید محمد ثمین الدین بن شیخ سید قاضی القضاۃ عماد الدین بن شیخ سید ابو بکر تاج الدین بن حضرت شیخ الشیوخ سیدنا عبدالرزاق بن حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سید ابو محمد عبدالقادر جیلانی قدس اللہ اسرارھم۔حضرت سید علی اصغر جیلانی المعروف ، دریا کا پیر رحمہ اللہ کا شمار بڑے باکمال اولیاء کا ملین و عارفین میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے برادر اکبر حضرت سید علی اکبر شاہ جیلانی رحمہ اللہ کے ساتھ دریائے مہران کے کنارہ درگاہ نوارئی شریف میں ایک اوطاق (بیٹھک) بنائی ہوئی تی اس میں رہتے اور ریاضت و عبادت کرتے اور اپنے چشمہ فیض سے پیاسوں کو سیراب کرتے۔ حضرت مولانا سید محمد بخش جیلانی علیہ الرحمہ جو حضرت علی اصغر کے دربار کے صاحب سجادہ اور چشم و چراغ تھے، کا بیان ہے کہ ایک دن ایک بڑھیا روتی ہوئی آپ کی خدمت گرامی میں حاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی کہ میرے تمام گھر والے اب سے تھوڑی دیر پہلے کشتی میں سوار تھے اور کشتی سمیت ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں۔ اگر آپ واقعی اس پیران پیر کی اولاد سے ہیں جس نے مجھ جیسی بڑھیا کا ڈوبا ہوا بیڑا ترایا تھا تو خدا را میرا بیڑ بھی پار کیجیے ڈوبی ہوئی کشتی کو نکالیے۔ حضرت سید علی اکبر نے اپنے برادر اصغر حضرت سید علی اصغر جیلانی سے فرمایا تم دریا میں جاؤ اور کشتی نکلوا لاؤ۔ حضر ت علی اصغر جیلانی نے فوراً اپنے بھائی کےحکم کی تعمیل کی اور گھوڑےپر سوار ہو کردریا میں اسی مقام سے داخل ہوئے جہاں کشتی ڈوبی تھی۔ شاہ صاحب کا دریامیں جانا تھا کہ کشتی باسلامت باہر نکل آئی لیکن حضرت خود باہر نہ آئے! تمام لوگ لب دریا جمع ہوگئے اور حضرت کے نکلنے کا شدت سے انتظار کرنے کرنے لگے لوگوں کو حضرت کے ڈوب جانے کا یقین ہوگیا۔ غوطہ لگانے والوں نے ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا لیکن حضرت کا کہیں بھی سراغ نہ مل سکا۔ اسی حالت میں چالیس دن گذرے کہ اچانک گھوڑے پر سوار باہر آئے آپ کے آتے ہی خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ آپ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حضر علیہ السلام کے عطا کردہ چند تحائف بھی اپنے ساتھ لائے ، جائے نماز ایک ہزار دانوں والی تسبیح ،حمائل شریف اور ایک کشکول جو کہ آپ کے خاندان میں موجود تھے لیکن کسی ظالم نے اشیاء مذکورہ چرالیں اس واقعہ کے بعد آپ نے بحری زندگی اختیار کرلی۔ اور ایک کشتی کو اپنا مسکن بنایا اس ی میں اپنی زوجہ کے ساتھ رہتے اور عبادت و ریاضت کرتے اور اسی سبب سے آپ دریا کا پیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ اب دنیا آپ دریا کے پیر کے نام سے جانتی ہے اپ کو کوئی اولانہ ہوئی دربارنورائی شریف آپ کےنام سے مشہور ہوئی۔ آخر آپ نے کشتی میں ہی ۲۸ ربیع الاخر ۱۲۰۰ ھ میں وفات فرمائی۔ دریائے سندھ کے کنارے کوٹری پل سے متصل مشرقی جانب آپ کو چھ ماہ کے لیے بطور امانت مدفون کیاگیا ۔ (اور یہ مقام اب بھی موجود ہے جو دریا کے پیر کا تکیہ کہلاتا ہے وہاں پر آپ ہی کے خاندان میں سے حضرت فتح محمد شاہ جیلانی ثالث کا مزار زیارت خاص و عام ہے) چھ ماہ کے بعد آپ کی نعش مبارک کو نکال کر اس اوطاق (بیٹھک) نورائی شریف میں دفن کیا گیا جس میں آپ پہلے رہا کرتے تھے آپ کا مزار مقدس مرجع خلائق اور پریشانیوں کا حل ہے۔ تحفۃ الکرام جلد دوم میں حضرت کا تزکرہ موجود ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )