علامہ عبدالحکیم کنڈوی
علامہ عبدالحکیم کنڈوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ عبدالحکیم کنڈوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
استاد العلماء مولانا عبدالحکیم کنڈوی گوٹھ کنڈو ؍کنڈی؍کنڈا( تحصیل بھاگ ناری ضلع کچھی صوبہ بلوچستان ) میں تولد ہوئے ۔ حضرت علامہ نور محمد شہدا د کوٹی سے خاندانی رشتہ دوری تھی اور ایک ہی علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
حافظ نور محمد بھاگ ناڑی کے پاس قرآن پاک حفظ کی سعادت حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کا فیہ تک ریاست قلات کے شہر میر پور کے مشہور عالم دین قاضی محمد ابراہیم امیر پوریؒ سے حاصل کی ، اس کے بعد قاضی صاحب نے اپنے ہونہار شاگرد کو سندھ کے جلیل القدر عالم علامہ مخدوم محمد آریجوی قد س سرہ ( گوٹھ خیر محمد آریجہ ضلع لاڑکانہ ) کے پاس حصول علم کے لئے بھجوایا ۔ مولانا عبدالحلیم ، جب آریجہ میں مخدوم صاحب کی خدمت میں پہنچے تو مخدوم صاحب نے آپ سے کافیہ میں سے ’’غیر منصرف الضرورۃ ‘‘کے متعلق دریافت کیا ۔ آپ نے ایسی تقریر کی جس پر مخدوم صاحب مولانا عبدالحلیم سے بہت خوش ہوئے ، یہاں تک کہ خوشی میں آنسو رخساروں تک آگئے اور فرمایا :’’میں بوڑھاہو چکا ہوں اب پڑھانے کی ہمت نہیں رہی ہے ، ورنہ تم کو میں خود پڑھاتا، میں تمہیں اپنے خاص شاگرد سیدمحمد عاقل شاہ ہالانی والے ( تحصیل کنڈیارو ) کے نام خط لکھ کر دیتا ہوں آپ انہیں کے پاس جا کر تعلیم حاصل کریں۔
مولانا کچھ روز وہیں ٹھہر گئے خط لے کر ہالانی جانے والے تھے کہ حضرت مخدوم محمد آریجوی کا انتقال ہو گیا۔ اس عظیم علمی سانحہ پر تمام علماء کرام اپنے عظیم محسن و استاد محترم کے جنازہ میں شرکت کے لئے آریجہ پہنچ گئے ، ان میں سے ایک استاد العلماء علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری بھی تھے ۔ مولانا عبدالحلیم نے مخدوم صاحب کا خط یہیں آریجا میں پیش کیا اور پورا واقعہ سنایا۔ علامہ صاحب جب ہالانی کو واپس ہوئے تو استاد محترم کی وصیت کے مطابق عبدالحلیم کو ساتھ لے گئے ۔ مولانا عبدالحلیم نے درس نظامی کی تکمیل ہالانی میں کی وہیں دستار فضیلت سے مشرف ہوئے۔
بیعت :
آپ عار ف کامل حضرت میاں محمد کامل کٹباری قدس سرہ (درگاہ کٹبار شریف ، بلوچستان) سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔
(عمدہ الاثار فی تذکار اخبار الکتبار مفتی محمد قاسم یاسینی ۔ مشاہیر سندھ ص ۱۰۲۔ تذکرہ صوفیائے بلوچستان ص۲۵۲)
درس و تدریس :
بعد فراغت آبائی گوٹھ کنڈو میں مدرسہ قائم فرما کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ’’ریاست قلات ‘‘ کی طرف سے قاضی بھی مقرر ہوئے ۔ ساری زندگی درس و تدریس میں بسر فرمائی۔
عرصہ دراز کے بعد وہیں سے اپنے شاگرد خاص خلیفہ علامہ محمد یعقوب ہمایونی کے ہمراہ ہمایون شریف ( ضلع جیکب آباد ) میں آکر قیام کیا اور وہیں ولامہ ہمایونی نے مدرسہ قائم فرمایا ، جہاں استاد و شاگرد دنوں درس و تدریس کے ذریعے روشنی کے چراغ جلاتے رہے، علم کے پیاسوں کو سیراب فرماتے رہے۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی جماعت کثیر ہے ، ان میں سے دو نام ایسے ہیں جن کے وجود مسعود سے سندھ بھر کے دینی مدارس میں آج تک روشنی کے چراغ جل رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تا قیام روشن رہیں گے۔
۱۔ بدرالعلماء حضرت علامہ مولانا خلیفہ محمد یعقوب ہمایونی قدس سرہ
۲۔ صدر العلماء حضرت علامہ مولانا نور محمد شہداد کوٹی قدس سرہ
وصال:
حضرت صدر الافاضل علامہ مولانا عبدالحلیم کو علم پھیلانے کا خاص جذبہ تھا جس کے سبب شب و روز درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اس شوق و جذبہ سے اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ شادی کر سکیں ، اس لئے ساری زندگی مجرد رہے ۔ علم کے بحر بے پایاں نے سندھ میں شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ یاد گار چھوڑ کر ۹، محرم الحرام ۱۲۵۴ھ؍۱۸۳۸ء کو انتقال کیا۔
اس وقت شمال وجنوب سندھ کے جو عربی مدارس چل رہے ہیں وہ علامہ عبدالحلیم کے تعلیمی فیض کا نتیجہ ہیں ۔ اس اجرو ثواب سے ان کی روح کو تسکین ملتی رہے گی۔
آخری آرامگاہ روہڑی (ضلع سکھر) میں مختار کار کے دفتر کے نزد ایک پہاڑ پر ہے اور مقامی لوگ ’’پکھے والے پیر ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
(ماخوذ تیرہویں صدی کے مشاہیر سندھ ص ۴۰ مطبوعہ ۱۹۶۷ء حیدر آباد)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)