حضرت علامہ ابو القاسم محمود بن عمر المعروف علامہ زمخشری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
محمود بن عمر بن محمد بن عمر زمخشری: ابو القاسم کنیت تھی،چونکہ مدت تک آپ نے مکۂ معظمہ کی مجادرت کی تھی اس لیے آپ جار اللہ اور نیز فخر خوارزم کے لقب سے ملقب ہوئے،اپنے وقت کے امام بلا مدافع،علامہ،نحوی،لغوی،فقیہ جید،محدث متقن،مفسر کامل،فاضل مناظر،ادیب،متکلم،بیانی،شاعر،ذکی،تیز طبع،حنفی الفروع، معتزلی الاصول تھے۔شہر زمخشر علاقہ خوارزم میں ۲۷ ؍ماہ رجب ۴۶۷ھ کو پیدا ہوئے۔علم ادب ابی الحسن علی بن مظفر نیشا پوری اور ابی نعیم اصفہانی سے حاصل کیا اور آپ سے زین بقالی محمد ابی القاسم وغیرہ لوگوں نے اخذ کیا اور آپ کو اصحاب پیدا ہوئے۔کئیدفعہ بغداد میں آئے۔چونکہ بہ ایام طالب علمی جب آپ بخارا کو جارہے تھے تو راستہ میں آپ سواری سے گر پڑے اور ٹانگ کو سخت ضرب آئی اور ہر چند علاج کیا کچھ فائدہ نہ ہوا اس لیے آپ نے ناچار ہو کر ٹانگ کو کٹواڈالا اور بجائے اس کے لکڑی کا پاؤں بنوایا،جب چلتے پھر تے تو اس پر کپڑاڈال دیتے جس سے دیکھنے والا گمان کرتا کہ آپ لنگڑے ہیں۔
آپ نے تفسیر،حدیث لغت وغیرہ میں نہایت جید تصانیف کیں چنانچہ تفسیر کشاف،فائق اللغہ فی تفسیر الحدیث اساس البلاعہ فی اللغہ،ربیع الابرار،متشابہ اسامی الرواۃ،نصائح الکبار،نصائح الصغار،الرائض فی علم الفرائض،المفصل فی النحو، انموذج،مفرو،شرح ابیات سیوبہ،شقائق النعمان،مقامات زمخشری،مستقصی فی الامثال،اطواق الذہب،شرح مشکلات المفصل،الکلم التواضع القسطاس فی العروض، الاحاجی النحویہ،المنہاج فی الاصول،رسالۃ ناصحیہ،مقدمۃ الادب،رؤس المسائل فی الفقہ،نصوص الاخبار،صمیم العربیہ،دیوان التمثیل،امال،معجم الحدودو المیاہ والا ماکن و الجبال،ضالۃ الناشد،وغیرہ مشہور و معروف ہیں۔
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ بسبب معتزلی الاعتقاد ہونے کے آپ نے تفسیر میں بعض مقام پر تاویل میں سوء تعبیری و تغیر کو کام فرمایا ہے جو اکثر لوگوں پر خفیہ ہے اس لیے ہمارے بعض فقہاء نے آپ کی تفسیر کا مطالعہ کرنا حرام لکھاہے۔وفات آپ کی عرفہ کی رات ۵۳۸ھ کوشہر جرجانیہ خوارزم میں واقع ہوئی۔ ’’ہادیٔ ادبستان‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)