احمد بن اسمٰعیل بن محمد کورانی المعروف بہ مولیٰ فاضل شمس الدین [1] تھا، قصبۂ کوران میں جو ملک خراسان کے علاقہ اسفرائن میں واقع ہے،پیدا ہوئے۔ پہلے اپنے ملک کے علماء سے پڑھتے رہے پھر قاہرہ میں تشریف لائے اور یہاں کے علماء و فضلاء سے علم قراءت و حدیث و تفسیروفقہ واصول وغیرہ پڑھا اور اجازت کی سند حاصل کی۔
کہتے ہیں کہ جب مولیٰ محمد بن ادمغان المعروف بمولیٰ یگان حجاز کے سفر سے قاہرہ میں داخل ہوئے تو آپ ے ان سے ملقات کی اور وہ آپ کو بلادروم کی طرف اپنے ہمراہ لے گئے پس جب سلطان مراد خاں سے مولیٰ یگان نے ملاقات کی تو پادشاہ نے فرمایا کہ کچھ ہمارے لیے آپ تحفہ بھی لائے ہیں؟ مولیٰ یگان نے کہا کہ ہاں ایک شخص عالم فاضل،فقیہ،محدث،بارع فی العلوم اپنے ساتھ لایا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کہاں ہے،انہوں نے فرمایا کہ وہ دروازاہ پر کھڑا ہے،بادشاہ نے آدمی بھیج کر بلوالیا۔آپ پادشاہ کےپاس آئے اور سلام کیا،بادشاہ نے سلام کا جواب دےکر آپ سے کچھ دیر تک گفتگو کی پس اس نے آپ کو علم و فضل میں دیکھ کر شہر بروسا میں اپنے دادا مراد خاں غازی کے مدرسہ پر مرس مقرر کردیا پھر آپ کو اپنے بیٹے محمد خاں کا معلم بنایا جب سلطان محمد کاں خت نشی ہوا تو آپ کی اور بھی تعظیم و تکریم ہونے لگی اور منصب قضاء و افتاء کا آپ کے تفویض ہوا۔
۸۶۷ھ میں آپ نے ایک تفسیر مسمٰی بہ غایۃ الامانی فی تفسیر اکلام الربانی تصنیف کی اور اس میں علامہ زمخشری اور بیضاوی پر اکثر جگہ مواخدذات کیے پھر ۸۷۴ھ میں شہرا درنہ میں صحیح بخاری کی شرح تصنیف فرمائی اور اس کا نام الکوثر الجاری علیٰ ریاض البخٰاری رکھا اور اس میں اکثرمواضع پر کرمانی اور ابن حجر پر اعتراض کیے اور لغات مشکلہ اور مواجع التباس میں اسماء الراوۃ کی اچھی طرح بیان کیے،علاوہ اس کے کتاب شاطبیہ کی شرح جعبری پر حواشی لکھے۔آپ بڑے راست گو،عابد اور شب بیدار تھے یہاں تک کہ ہر روز رات کو ایک دفعہ قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے اور بالکل نہ سوتے تھے۔وفات آپ کی قسطنطیہ میں ۸۹۳ھ میں ہوئی۔ ’’مرجع شرف‘‘ تاریخ وفات ہے۔
1۔ بعض جگہ آپ کا لقب شہاب الدین لکھا ہے،پہلے شافعی تھے پھر حنفی ہوگئے تصانیف میں الدر اللوامع للسبکی فی اصول اور شرح کافیہ لا میں حاجب نفی نحو بھی ہیں،بعض جگہ وفات ۸۹۲ھ یا ۸۹۴ھ لکھی ہے۔(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)