حضرت مولانا اصغر علی روحی ابن مولانا قاضی شمش الدین ابن میاں پیر بخش بن رکن الدیں (رحہم اللہ تعالیٰ )۱۲۸۴ھ/۱۸۶۷ء میں دریائے چناب کے کنارے واقع قصبہ کٹالہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۔ بچپن میں والدماجد کا انتقال ہو گیا ، ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور آئے اور اپنے دور کے ممتاز فضلاء م ولانا فیض الحسن سہا ر نپوری ، مفتی عبد اللہ ٹنکی ،مولوی عبد الحکیم کلا نوری اور مولوی قاضی ظفر الدین سے اسفادہ کرکے پنجا ب یونیوورسٹی سے منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کئے او ایم او ایل کی ڈگری حاصل کی۔
علامہ اصغر علی روحی اور نیٹل کالج ، لاہور کے پرورفیسر ہے ، پھر ۹۲ ۱۸ ء سے ۱۹۴۱ ء تک اسلامیہ کالج لاہور کے شعبۂ عربی کے پروفیسر رہے ، اس کے بعد اگر چہ پیرانہ سال کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے لیکن انجمن حمایت اسلام ( جس کے زیر انتظام اسلامیہ کالج جاری تھا) نے ازراہ قدردانی چارصد روپیہ مشاہرہ تا حیات مقرر کر دیا ۔ حضرت علامہ روحی تمام زندگی شریعت مبارکہ کے پابند اور ظاہری تکلفات سے بے نیاز رہے ۔ انہیں عربی اور فارسی زبانوں پر کامل عبور حاصل تھا اور دونوں زبانوں میں بلا تکلف شعر کہتے تھے[1]
نعت پاک کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
روحیٔ لب تشنہ رادریاب اے ابر کرم
اے کہ از فیض بست تسنیم و کوظر ساختند
سوز اوزسوختن دیگر نبیند چارہ ي
زانکہ داغ عشقت آتش دل سمندر ساختند
نعت احمد وصف قرآں ہر دور در معنیٰ یکے ست
ازپئی اجمال یک ، تفصیل دیگر ساختند [2]
بڑے برے اہل علم کیآپ سے نیاز مند انہ تعلقات تھے ،مکرمی حکیم محمد موسیٰ مرتسری مدظلہ ، آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
’’عربی اور فارسی ادب میں یکتائے روز گار تھے ، ایسی قابلیہ کے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوا کرتے ہیں ، فضلائے عہد آپ کی فضیلت علمی کے مداح و معترفت تھے ، علامہ ڈاکٹر ، محمد اقبا ل بھی بسا اوقات آپ سے اسفاد ہ کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جب مرزا قادیانی نے غلط سلط عربی میں نام نہاد قصیہ اعجازیہ لکھ کر ڈینگیں مانا شروع کیں تو علامہ روحی نے فی الفو اس کا جواب لکھ کر پیسیہ اخبار ، لاہور میں شائع کرادیا تھا ‘‘ [3]
’’بڑے فاضل اور قابل تھے ، گمٹی بازار لاہور میں درس کلام مجید دیا کرتے تھے [4]
۱۹۰۳ء میں آپ نے لاہور سے ایک علمی و ادبی پرچہ الہدی جاری کیا[5]
جس میں تفسیر قرآن، تاریخ اسلام اور تصوف پر مضامین شائع ہوتے تھے ، علامہ دو سال اس کے مدیر مستول رہے[6]
علامہ اصغر علی روحی نے تصانیف کا قابل قدر ذخرہ یاد گار چھوڑ ا ، چند مطبوعہ تصانیف (یہ کتابیں لاہور سے شائع ہوئیں ) یہ ہی:۔
۱۔ وبیر عجم : فن بلاغت و تنقید ، فارسی ، صفحات ۴۸۰(مطبوعہ ۱۹۳۶ء)
۲۔ العروض والقوافی علم عروض اردو ’’ ۱۴۴‘‘ ۱۹۳۶ء
۳۔ ترجمہ نصیحۃ التملیذازامام غزالی ’’ ، ’’۳۶ ’’۱۳۲۷ھ
۴ ۔ ترجمہ قصیدہ بردہ اردو، صفحات ۱۸۲ مطبوعہ ۱۳۲۶ھ۔
۵ ۔ امیر الکال من کلام الا مام ’’ ، ‘‘ ۱۲۸ ’’ ۱۳۲۲ھ
۶۔ شرح اسماء حسنیٰ ’’، ‘‘ ۲۴۸’’۱۳۲۹ھ
۷۔ سیطرہ الاسلام علیٰ النصاری اللنام ردعیائت اردو‘‘ ۱۲۴ ’’ ۱۳۲۰ھ
۷۔ مافی الا سلام ( اسلامی عقائد و احکام ، دو جلد ) ’’،‘‘ ۱۲۰۰ ’’۱۳۵۰ھ
ان کے علاوہ بعض تصانیف فارسی دوان چھ ہزار اشار پر مشتل اور دوان عربی پانچسوا اشعار پر مشتمل، تفسیر سوہ یٰسین ، آخری دو پاروں کی تفسیر اور خطبات عربی ابھ منتظر اشاعت ہیں[7]
حضرت علامہ روحی کے فرزند اجمند ڈاکٹرصوفی محمد ضیاء الحق ، ادب عربی کے مسلم فاضل ہیں اور اپنے والد گرامی کیکلم کی تر تیب و اشاعت میں کو شاں ہیں۔
حضرت علامہ اصغر علی روحی قدس سرہ کا وصال ۱۳۷۳ھ/۱۹۵۴ء میں ہوا ۔ آپ کا مزار کٹھالہ میں مسجد سے ملحق ، برلب شاہرا ہ عظیم ( جی ۔ ٹی ۔ روڈ) واقع ہے[8]
[1] سبط رضوی ڈاکٹر : فارسی گویان پاکستان ، ج ۱
( مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ۱۹۷۴ئ) ص۲۶۱۔۲۲۶
[2] ایضاً :ص ۶۲۳
[3] مکتوب مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مد ظلہ تبام رقم الحرو ف۔
[4] دانسائیکلو پیڈیا:مطبوعہ فیرونز ، ( طبع ثانی ۱۹۶۸ئ) ص ۱۱۰
[5] لاہور نمبر ‘‘ شمارہ فر وری ۱۹۶۲ء ، ص ۹۲۰
[6] ڈاکٹر : فارسی گویان پاکستان ، ج ۱ ، ص ۲۶۲ (۶۱) پیج نمبر۔
[7] سبط حسن رضوی ، ڈاکٹر : فارسی گویان پاکستان ، ج ۱ ص ۲۶۲، ۲۳۔
[8] ایضاً:ص ۲۶۱
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)