استاد العلماء حضرت علامہ غلام حسین ولیدائی
استاد العلماء حضرت علامہ غلام حسین ولیدائی (تذکرہ / سوانح)
درمیانہ قد، بھرا ہوا مضبوط جسم، منہ گول، بڑی بڑی آنکھیں، گندمی رنگ، چہرہ نورانی سر پر ہمیشہ دو انچ تک گھنگریالے بال، شلوار ، کبھی تہبند، سر پر سفید ٹوپی، باہر جاتے اور نماز کے وقت عمامہ شریف سر پر سجاتے ہمیشہ سادہ اور سفید کپڑے کا لباس، جیسی فطرت میں سادگی ویسی کھانے پینے اور اوڑھنے میں سادگی، اخلاق میں پاکیزگی، مہمان نوازی میں دریا دل ، عمل میں تقویٰ ، فالتو بحث اور لڑائی جھگڑے سے دور، ذہین، تیز حافظہ، گفتگو میں آہستگی، ٹھہرائو شائستگی، آخری عمر میں اونچا سننا، کچھ دانت سالم، آخر عمر تک بغیر چشمہ کے لکھنا اور پڑھنا، فارسی میں کم طبع آزمائی ، اعلیٰ مدرس، بڑے لکھاری، بزرگ اور عاشق حبیب کریم ﷺ ان اوصٓف کے مالک ہیں حضرت استاد العلماء علامہ غلام حسین ولیدائی۔ جنہوں نے ۱۸۹۳ء میں اپنے والد حضرت مولانا محمد یوسف عباسی کے گھر میں آنکھ کھولی۔
تعلیم و تربیت:
ولید نامی گوٹھ (جو کہ اب لاڑکانہ شہر کا محلہ ہے) میں مولان امحمد یوسف عباسی نے دانش اور دانائی کا مکتب قائم کیا تھا جس کی آگاہی اور روشنی نے آپ کے پیارے صاحبزادے غلام حسین ولیدائی کو رنگ میں رنگ دیا۔
جولائی ۱۸۹۸ء میں ولید گائوں میں پرائمری اسکول کھل گیا، جہاں پر آپ کو چھ سال کی عمر میں اگست ۱۸۹۹ء میں سندھی بچوں کی کلاس میں داخلہ ملا، پرائمری تعلیم مکمل کرکے ولید پرائمری اسکول سے فارغ ہوئے۔ ابتدائی فارسی کی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی بقیہ فارسی کی تعلیم مولانا محمد بچل عباسی سے قدیم عید گاہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل رتوڈیرو، گڑھی یاسین ، نورنگ واہ، اور سنہری کے دینی مدارس میں حاصل کی۔
دستار فضیلت نورنگ واہ (ضلع لاڑکانہ) کے مدرسہ میں ۱۶ اکتوبر ۱۹۱۹ء میں حاصل کی، اس کے بعد سنہڑی گوٹھ کے مدرسہ میں ایک سال مختلف علوم کا دورہ پڑھا۔
آپ کے اساتذہ کرام کے اسماء گرامی:
٭ مولانا محمد یوسف عباسی (آپ کے والد)
٭ مولانا حکیم محمد بچل عباسی (مدرس مدرسہ قدیم عید گاہ موجودہ جامع مسجد قاسمیہ لاڑکانہ)
حکیم صاحب حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی علیہ الرحمۃ کے شاگرد تھے اور اس درسگاہ میں ۱۹۳۷ء میں انتقال کیا۔
٭ مولانا عبداللہ نوناری (رتو ڈیرو) یہ مولانا بھی شہداد کوٹ کے مدرسہ کے فاضل تھے۔
٭ حضرت مولانا مفتی محدم قایم یاسینی مدرسہ ہاشمیہ گڑھی یاسین
٭ مولانا میر محمد نورنگی نور رنگ واہ، قمبر علی خان ، ضلع لاڑکانہ
٭ مولانا حافظ محدم کامل قادری گوٹھ سنہڑی متصل لاڑکانہ
درس و تدریس:
گوٹھ سنہڑی کے مدرسہ سے دورہ حدیث کرنے کے بعد ولید آکر اپنے والد صاحب کے مدرسہ کو وسعت دی۔ ۱۹۲۱ء سے پڑھانے کا عمل جاری و ساری رکھا۔ ۱۹۳۱ء میں مدرسہ ہاشمیہ گڑھی یاسین مدرس کی حیثیت سے تشریف لے گئے، جہاں پر چھ سال تک عملم کی روشنی پھیلاتے رہے ۱۹۳۷ء کو ولید مدرسہ واپس آئے۔
تلامذہ:
درس و تدریس کے دوران ۱۹۴۰ء تا ۱۹۵۰ء تک جو شاگرد تیار ہوئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
٭ مولوی سید عبدالفتاح شاہ(ولید) ولد مولوی محمد صالح شاہ بخاری آیجوی گوٹھ آریجا متصل لاڑکانہ
٭ مولوی عطا محمد عباسی (آپ کے صاحبزادے وفات ۱۹۶۱ئ)
٭ ڈاکٹر مدد علی قادری سابق صدر شعبہ عربی سندھ یونیورسٹی جام شورو۔
٭ پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالہادی سرھیہ
مولانا غلام حسین ولیدائی درس و تدریس تصنیف کے ساتھ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء تک مرتضیٰ مسجد سرہیہ محلہ میں ظہر تا عصر درس حدیث دیا۔ یہاں بعض علماء نے استفادہ کیا، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ مولوی دریا خان مکرانی
٭ مولوی امام بخش جتوئی
٭ مولوی شبیر احمد
٭ مولوی عبدالکریم پنجابی ڈیرہ غازی خان(پنجاب)
٭ مولانا محمد اسحاق جتوئی مرحوم (متوفی ۲۳ رمضان ۱۴۱۹ھ) سابق عربی کے استاد گورنمنٹ میونسپل ہائی اسکول لاڑکانہ
٭ مولانا امیر بخش چنہ طوطی سندھ لاڑکانہ حال خطیب میہڑ
تصنیف و تالیف:
مولانا غلام حسین ولیدائی اپنے دور میں سندھ کے واحد عالم دین نظر آتے ہیں جو اپنی فاضلانہ ، دانشورانہ کاوشوں سے عام سنھی مسلمانوں اور طلباء کی رہنمائی و بھلائی کی خاطر دین کی پیچیدہ باتوں اور فقہی مسائل کو سمجھنے سمجھانے کیلئے عربی اور فارسی نصاب (درس نظامی) کو سندھی زبان کا رنگ دیا۔ اس طرح فارسی اور عربی الفاظ کو سندھی زبان کا سلیقہ بخش دیا۔ مولانا صاحب نے رات دن کی محنت شاقہ سے یہ عظیم کارنامہ تن تنہا سر انجام دیا۔ ایک طرف نصابی علوم کو سندھی میں لانے کی وجہ سے دین کو عام کرنے کی سخاوت کی اور دوسری طرف سندھ ی علم و ادب کی لازوال خدمت سر انجام دی۔ اس کیلے آپ کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ وہ نصابی کتب جن کا ترجمہ کای گیا وہ کل ۹۸ کتب ہوں گی۔ اس کے علاوہ سندھ کے جدا جدا کتب خانوں سے مشہور علماء و فضلاء کے قلمی نسخے عربی، فارسی، سندھی اور اردو زبان میں جہاں بھی پائے اپنے ہاتھ سے نقل کرکے اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنا دیئے وہ نسخے ۱۵۶ تھے۔
کتب خانہ:
آپ کی لائبریری میں مندرجہ ذیل کتب مطبوعہ تھیں وہ اس وقت سندھ یونیورسیٹی جامشورو کے شعبہ سندھ لاجی کی ملکیت ہیں:
٭ تفاسیر ۶۷
٭ حدیث و اصول حدیث: ۵۸
٭ فتاویٰ ۴۷
٭ فقہ و اصول فقہ ۱۸۰
٭ صرف و نحو ۱۴۵
٭ میراث ۱۷
٭ حکمت و فلسفہ ۱۰۱
٭ معانی و بلاغت ۱۵
٭ تصوف، ادب، نصائح و مواعظ ۱۷۲
٭ انشائ، مکتوبات، ملفوظات ۲۳
٭ سیرت، تاریخ، تذکرہ، سفرنامہ ۸۳ٍ
٭ لغات حساب اور جیومیٹری ۱۴
٭ قرأت و وظائف ۱۰
٭ مناظرہ ۳۱
٭ مختلف کتب و رسائل ۳۰
مندرجہ بالا تفصیل سے آپ کے کتب خانہ کی وسعت معلوم کی جاسکتی ہے۔
آپ کے وصال کے وقت عمر ۷۵ سال تھی، شروع والے ۲۷ سال تعلیم و تربیت حاصل کرنے میں صرف کئے۔ ۳۹ سال پڑھانے اور لکھنے میں گزارے، بقیہ ۹ سال فقط لکھنے میں گزارے۔ ۶ دسمبر ۱۹۶۸ئ/۱۳۸۸ھ کو انہوں نیا پنی جان جان آفرین کے سپرد کی۔ (مجلہ سوونیئر صد سالہ جشن پرائمری اسکول (سندھی) ولید لاڑکانہ ۱۹۹۸ئ)
آپ کا مزار شریف ولید محلہ کی جامع مسجد مدرسہ منور الاسلام کے احاطہ میں مرجع خلائق ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)