حضرت علامہ مخدوم بصر الدین صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نامور بزرگ حضرت علامہ مخدوم بصر الدین صدیقی ’’سیوہن شریف‘‘ کے صدیقی خاندان کے نامور عالم گزرے ہیں۔ مخدوم بصر الدین کا اصل نام رکن الدین تھا لیکن شہرت بصر الدین سے حاصل ہوئی۔ جد بزرگوار مخدوم محمد حسن صدیقی (وفات ۱۲۲۰ھ/۱۸۰۵ئ) اپنے وقت کے عالم عارف و کامل بزرگ تھے۔ اس خاندان ذی وقار میں بے شمار علماء ، فضلائ، مشائخ، ادبائ، حکما اور شعراء نے جنم لیا ہے۔ ’’مغل حکومت‘‘ میں اس خاندان کے بعض علماء قاضی اور قاضی القضاء (چیف جسٹس) کے مناصب جلیلہ پر فائز تھے جو کہ اپنے دور میں شرعی و فقہی مسائل سے متعلق فتاویٰ جاری فرماتے اور فیصلہ صادر فرماتے تھے۔ کلہوڑ اور تالپوروں کے عہد میں بھی انہی مناصب پر فائز رہے۔
مخدوم بصر الدین کی ۲۹ رمضان المبارک ۱۲۸۲ھ بمطابق ۱۷ ستمبر ۱۸۶۳ء کو قلندر کی نگری سیوہن شریف (ضلع دادو) میں ولاد تہ ہوئی ۔ خلفہ حکیم غلام محی الدین عباسی آپ کے ماموں او ان کے بیٹے حکیم فتح محمد صغیر سیوہا نی (۱۸۸۲ئ۔۱۹۴۲ئ) آپ کے ماموں زاد بھائی تھے (لیکن فتح سیوہانی کے عقائد تبدیل ہوگئے تھے، خلاف کے دور میںوہ امروٹی گروپ کا قریبی ارو دین محمد وفائی جیسے نامور کٹر وہابی کا دست راز بن گیا تھا)
تعلیم و تربیت:
مخدوم بصر الدین نے ابدتائی فارسی و عربی تعلیم سیوہن شریف میں حاصل کی ۔ مزید تعلیم اپنے چچا زاد بھائی علامۃ الزمان حضرت مخدوم حسن اللہ صدیقی (۱۸۵۰ئ۔۱۹۲۰ئ) کی خدمت عالیہ میں رہ کر پاٹ شریف کی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔
مخدوم صاحب کے والد احمد صدیقی کراچی میں گورنمنٹ ملازم تھے ، انہوں نے اپنے بیٹے کو انگریزی تعلیم دلانے کیلئے ’’سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کراچی میں داخل کرایا۔ جہاں سے مخدوم بصر الدین صدیقی نے قانون کی ڈگری اعلیٰ اعزاز سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کے والد نے آپ کو سرکاری نوکری دلا دی لیکن آپ کا دل مطمئن نہ تھا اسلئے جلد ہی ملازمت سے سبکدوش ہو کر سیوہن شریف واپس آئے اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے۔
تصنیف و تالیف:
مخدوم صاحب قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، تصوف ، تاریخ، جفر، نجوم اور کیمیاء کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست پر بھی بھر پور دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے کئی کتابوں پر حاشیہ رقم کئے۔ ایسی قلمی کتب سیوہن میں حکیم محمد مراد صدیقی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے ابن سینا کی کتاب ’’القانون‘‘ (عربی) الجزء الاول، الثانی و الثالث پر حاشیہ تحریر ہے جو کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کا خط ایسا نفیس ہے جیسے موتی چمک رہے ہیں۔ آپ کی تحریر کا عکس سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے مجلہ ’’مہران‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا ہے۔
مخدوم صاحب نے عربی میں بھی کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں ان میں سے ’’البصائر‘‘ نامی کتاب نہایت مشہور ہے جس میں کئی مسائل پر تسلی بخش کلام کیا گیا ہے۔ نام سے معلوم ہورہا ہے کہ عقائد کے موضوع پر ہوگی، خدا کرے اشاعت کی راہ ہموار ہو۔
حکمت:
مخدوم بصر الدین خاندانی حاذق حکیم تھے۔ ننہیال اور ددھیال کی کی طر ف سے پشت ہا پشت حکیم گزرے ہیں۔ آپ کے داد اجان حکیم مخدوم حسن نے طب کے موضوع پر آزمودہ مجرب نسخہ جات پر مشتمل ایک اہم کتاب ’’سدیدی‘‘ تالیف کی تھی۔ ان کے علاوہ بھی مخدوم صاحب کے پاس خاندانی آزمودہ نسخہ جات تھے اور عوام الناس کا علاج اپنے آزمودہ نسخہ جات سے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی اسلئے سینکڑوں لوگ مستفیض ہوتے۔
شاعری:
مخدوم بصر الدین صدیقی عالم عارف اور شاعر تھے۔ آپ کی شاعری حمد، نعت، مولود و مداح پر مشتمل ہے۔ آپ کا سینہ عشق مصطفیﷺ کا گنجینہ تھا۔ شاعری میں ’’بصر الدین‘‘ تخلص اپنا یا ہے۔
عادات و خصائل:
مخدوم بصر الدین انتہائی ذہین اور قوی حافظہ شخصیت تھے۔ آخر عمر تک حوالہ میں کتابوں کے نام، مصنف کا نام اور باب و صفحہ وغیرہ بتادیتے تھے۔ حسن اخلاق ، سادگی پسند، درویش طبیعت، پرہیزگار، خلیق، سخی، رحم دل اور گوشہ نشین تھے۔ کھانا دن میں صرف ایک بار تناول فرماتے ، خاموش طبیعت، اکثر مجاہدہ، عبادت و ریاضت اور مطالعہ کتب میں وقت صرف کرتے تھے۔ سفید لباس زیب تن، سر پر عمامہ ، ہاتھ میں عصا، رنگ گندمی، دارھی سنت مباکہ کے مطابق اور چہرہ پر نور تھا۔
آپ مستجاب الدعوات تھے۔ لارکانہ ، شکار پور اور جیکب آباد اضلاع سے رئیس، جاگیردار، زمیندار ،وڈیرے، آفیسر، علما و عوام زیارت و دعا دوا کیلئے حاضرت ہوتے تھے۔ آپ انسانیت کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ ۱۹۲۴ء میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط پڑا، فصلیں تباہ ہو رہی تھیں، جانور پیاس سے مر رہے تھے۔ مخدوم صاحب لاڑکانہ تشریف لائے تو شہر کے لوگوں کے اسرار پر (لاڑکانہ میں جہاں آج چانڈ کا ہسپتال ہے) نماز باران (استقائ) پڑھانے کے بعد دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو اسی وقت آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش ہونے لگی اور بارش مسلسل چار روز برستی رہی۔
۱۹۳۵ء میں مخدوم صاحب چانڈ یہ قوم کے سردار نواب غیبی خان چانڈیو کے بنگلہ (شہر لاڑکانہ) میں مہمان تھے۔ ان دنوں بھی سخت قحط تھا۔ باران نماز کیلئے لوگ جمع تھے۔ مولوی احمد عرف مولوی ٹھوڑہو نے نماز پڑھائی اور آپ نے دعا کیلئے ہاتھ درا زکئے اسی وقت دعا قبول ہوئی اور بارش برسنا شروع ہوئی چند گھڑیوں میں شہر کی گلیوں کوچون میں پانی جمع ہوگیا۔
آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب ولی اور بارگاہ صمدیت میں مقبول تھے، اس لئے آپ کی دعا قبول ہوتی۔ دعا مانگنے، تعویذ دینے سے لوگوں کو زمین و آسمان کی آفات و بلیات و مشکلات سے چھٹکارا مل جاتا تھا اسلئے جوق در جوق لوگ آپ کی طر ہر مسئلہ دینی و دنیاوی و روحانی میں رجوع کرتے تھے۔
رد وہابیت:
دیوبندی و اہل حدیث (غیر مقلد) گستاخ رسول ہیں، وہابی مولویوں نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں اپنی کتابوں میں لکھ کر شائع کی، علماء اہل سنت کی نشاندہی کے باوجود توبہ سے گریز کیا اور اشاعت بھی برقرار رکھی۔ یہی سبب تھا کہ علماء حرمین شریفین نے اکابر علماء دیو بند پر کفر کا فتویٰ جاری فرمایا جو کہ ’’حسام الحرمین‘‘ کتاب میں محفوظ ہے اور اس کی حمایت میں برصغیر پاک و ہند کے اکابر علماء اہل سنت نے بھی فتاویٰ مبارکہ جاری فرمائیں وہ فتاویٰ ’’الصوام الہندیہ‘‘ میں محفوظ ہیں۔
مخدوم بصر الدین وہابیوں کی گستاخیوں کے سبب ان سے سخت نفرت رکھتے تھے اسی نفرت کا نتیجہ ہے کہ آپ نے الصوارم الہندیہ (طبع اول مکتبہ فریدیہ ساہیوال) پر تصدیق فرمائی۔
اولاد :
آپ کو نرینہ اولاد می نصرف ایک بیٹا حکیم فخرالدین صدیقی تولد ہوا جس کو تین بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ میاں محمد (وفات لندن مدفون سیوہن)
۲۔ میاں احمد (مجذوب مدفون سیوہن)
۳۔ میاں سیف الدین (ریٹائرڈ سیشن جج کراچی) والد ڈاکٹر محمد سلیم صدیقی (کراچی)
وصال:
مخدوم بصر الدین صدیقی نے ۷۵ برس کی عمر پائی۔ ۸ ذوالقعدہ ۱۳۵۶ھ بمطابق ۱۱ جنوری ۱۹۳۸ء منگل کی نصف شب محلہ قاضی سیوہن شریف مین انتقال کیا۔ آپ کی مزار شریف آبائی قبرستان نزد درگاہ حضرت چٹھوا مرانی سیوہن شریف (ضلع دادو) میں مرجع خلائق ہے جہاں آپ کے عقیدت مند و معتقدین حاضری و فاتحہ کیلئے جمع ہوتے رہتے ہیں۔ (ماہنامہ السند جنوری ۲۰۰۲ئ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)