حضرت عمدۃ المدرسین مولانا محمد فرید رضوی گوجرانوالہ علیہ الرحمۃ
فاضل جلیل عمدۃ المدرسین حضرت ابو الریاض الحاج مولانا محمد فرید رضوی ہزاروی بن الحاج مولانا عبد الجلیل بن مولانا امیر غلام ۵؍ شعبان ۱۳۵۶ھ / ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو موضع جھاڑ مضافات تربیلہ (ہزارہ) میں پیدا ہوئے۔ مشہور پٹھان قوم عیسیٰ خیل کے مورثِ اعلیٰ عیسیٰ خان آپ کے جدِّ اعلیٰ تھے۔ ایک اور جدِّ اعلیٰ عبدالرشید خان قندھار کے حاکمِ اعلیٰ ہو گزرے ہیں۔
آپ عِلمی و رُوحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ والد ماجد مولانا الحاج عبدالجلیل کے شب و روز تبلیغِ دین میں گزرتے ہیں۔ آپ کے جدِّ امجد کے حقیقی بھائی پیرِ طریقت علامہ امیر محمود اپنے علاقہ کے مرکزِ رشد و ہدایت ہیں، سینکڑوں طلباء نے ان سے اکتسابِ فیض کیا، نہایت سادہ منش اور پابندِ شریعت بزرگ ہیں۔ نہ صرف اپنی اولاد کو علومِ دینیہ سے بہرہ ور کیا، بلکہ دامادی کے لیے بھی اصحابِ علومِ اسلامیہ کا انتخاب کیا۔
حضرت مولانا محمد فرید رضوی مدظلہ نے ابتدائی تعلیم بعض مساجد میں حاصل کی۔پھر والد ماجد کی وساطت سے ہزارہ ڈویژن کے روحانی و علمی مرکزی دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ میں داخل ہوئے۔ مولانا قاضی حبیب الرحمٰن اور مولانا قاضی غلام محمود سے عِلمی استفادہ شروع کیا۔ اوّل الذکر حضرت علامہ قاضی عبدالسبحان کھلابٹی رحمہ اللہ کے داماد اور آخر الذکر آپ کے صاحبزادہ ہیں۔ جب حضرت قاضی رحمہ اللہ دار العلوم میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لائے تو ان سے بھی علمی اکتساب کیا۔ ایک نہایت ہی محنتی اور مشفق استاد مولانا حافظ محمد یوسف سے بھی ابتدائی اسباق پڑھے۔ چار سال بعد جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخلہ لیا۔ دو سال بعد حضرت محدّثِ اعظم رحمہ اللہ حج پر تشریف لے گئے تو مولانا محمد فرید رضوی جامعہ نعیمیہ لاہور آگئے۔ یہاں آپ نے تقریباً سات سال کے عرصہ میں حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی کے زیرِ سایہ درسِ نظامی کی آخری کتب میر زاہد، ملّا جلال، حمد اللہ، قاضی، شمس بازغہ وغیرہ حضرت مولانا حسین امام، مولانا قاضی حبیب الرحمٰن اور مولانا قاضی عزیز الرحمٰن مردانوی سے پڑھیں۔ ہدایہ حضرت فقیہ العصر مفتی اعجاز ولی خاں رحمہ اللہ سے پڑھا۔ بخاری شریف کا درس مولانا مفتی محمد حسین نعیمی سے لیا ان کے علاوہ کچھ اسباق حضرت مولانا مفتی عزیز احمد بدایونی سے بھی پڑھے۔
۱۹۵۹ء میں جامعہ نعیمیہ سے دستارِ فضیلت اور سندِ فراغت حاصل کی۔ ۱۹۶۰ء میں مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں حضرت غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی مدظلہ سے علمِ حدیث پڑھ کر سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ گنج بخش لاہور سے کیا۔ یہ ادارہ حضرت مولانا مفتی اعجاز ولی خاں رحمہ اللہ کی سر پرستی میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں آپ نے ابتدائی اورمتوسّط کتب پڑھائیں۔ دو سال جامعہ امینیہ گوجر انوالہ میں اور دو سال دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور میں مسندِ تدریس پر فائز رہے۔
۱۹۶۶ء میں حضرت غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی مدظلہ کے ارشاد پر مدرسہ جامع العلوم خانیوال میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے شروع کیے بندۂ نا چیز (محمد صدیق ہزاروی) نے ایک سال ہری پور اور دو سال خانیوال میں آپ سے علمی استفادہ کیا۔ آپ نہایت مشفق اور مہربان استاد ہیں طالب علم کی علمی ضرورت ہی نہیں، بلکہ ہر قسم کی ضروریات کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ جس شفقت اور ہمدردی سے آپ نے بندہ کی تربیّت فرمائی، وہ نا قابلِ فراموش احسان ہے۔
دو سال (۷۲۔۱۹۷۱ء) جامعہ فضل العلوم ڈسکہ میں مدرس رہے اور اب عرصہ چھ سال سے جامعہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن گوجرانوالہ میں بطورِ صدر مدّرس علومِ اسلامیہ کی تدریس میں مصروف ہیں۔ دو دفعہ دورۂ حدیث بھی پڑھا چکے ہیں۔
دار العلوم کی مسجد، جامع مسجد فاروقیہ میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ اس سے قبل شاہد رہ موڑ (لاہور) واہگہ موڑ، گوجرا نوالہ شہر، نوشہرہ درکاں، ہری پور ہزارہ، خانیوال، جہانیاں (ضلع ملتان) اور جامع عمر ڈسکہ میں خطیب رہ چکے ہیں۔
آپ کی سیاسی وابستگی، سوادِ اعظم کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء پاکستان سے ہے۔ تحریکِ جمہوریت ۱۹۶۹ء میں آپ نے خانیوال میں بڑے برے جلوس کی قیادت کی، حالانکہ آپ جس دار العلوم سے متعلق تھے، وہ محکمہ اوقاف کے زیرِ اہتمام ایک مسجد میں قائم تھا، لیکن آپ نے خطرات کی پروا کیے بغیر تحریک میں حصہ لیا۔
تحریکِ ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں بھر پور حصہ لیا۔ گوجرانوالہ میں متعدّد جلسوں میں لوگوں کو فتنۂ مرزائیت سے آگاہ کیا۔ تحریک نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۹۷۷ء میں آپ کی کار کردگی پر گوجرانوالہ کی تاریخ شاہد ہے ایک دو کے علاوہ ہر جلوس کی قیادت میں شریک رہے اور بعض جلوسوں کی قیادت تو بلا شرکتِ غیرے کی۔
جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد چوک گھنٹہ گھر سے مولانا الحاج ابوداؤد محمد صادق مدظلہ اور مولانا عبد العزیز چشتی کے ہمراہ گرفتاری پیش کی دو دن اور راتیں صدر تھا نہ گوجرانوالہ میں رہے اور اس کے بعد رہائی ہوئی۔
خانیوال میں قیام کے دوران ’’انجمن اصلاح المسلمین‘‘سے وابستگی رہی اور انجمن کے زیرِ اہتمام بڑی سر گرمی سے تبلیغی واصلاحی کام کیے۔
خانیوال اور گوجر انوالہ میں متعدد بار بد عقیدہ لوگوں سے مناطرے ہوئے اور بفضلہٖ تعالیٰ کامیابی حاصل ہوئی۔ مولوی غلام اللہ (راولپنڈی) سے بحث ہوئی اور دیوبندی مکتبۂ فکر کے نور الحسن شاہ بخاری کو میدانِ مناظرہ سے بھگایا۔ خانیوال کے ایک مناظرہ میں دیو بندی عالم بے شمار کتابیں لے کر آئے، جبکہ حضرت استاذِ محترم کے پاس صرف قصیدہ بُردہ شریف تھا، لیکن آپ نے ابتدائی گفتگو میں ہی مخالفین کو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
فیّاضِ مطلق نے آپ کو تدریسی اور تقریری خوبیوں کے علاوہ جوہر قلم سے سر فراز فرمایا ہے؟ چنانچہ آپ نے گونا گوں مصروفیات کے باوجود درجِ ذیل کتب تصنیف فرمائیں۔
۱۔ صداقتِ میلاد بجواب حقیقتِ میلاد مطبوعہ
۲۔ ’’حاضر و ناظر اور علم غیب‘‘ ملّا علی قاری کی نظر میں مطبوعہ
۳۔ اثبات الدعا بعد الجنازہ بجواب دعا بعد الجنازہ غیر مطبوعہ
۴۔ رسالہ علمِ غیب غیر مطبوعہ
۵۔ ملّا علی قاری اور سر فراز گکھڑوی
حضرت غزالیٔ زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی مدظلہ سے شرفِ تلّمذ آپ کو پہلے ہی تھا۔ ۱۹۶۶ء میں آپ نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور حاضر ہوکر سلسلۂ چشت میں شرف بیعت بھی حاصل کیا اور حضرت کی جانب سے بیعت کی اجازت (خلافت بھی مرحمت ہوئی)
۱۳۹۶ھ /۱۹۷۶ء میں آپ کو جناب والد ماجد کی معیّت میں حج بیت اللہ شریف اور گنبدِ خضریٰ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسّلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
کثیر التعداد طلباء نے آپ سے علمی استفادہ کیا۔ چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا سیّد بشیر حسین شاہ، گوجرانوالہ
۲۔ مولانا خالد حسن مجدّدی، گوجر انوالہ
۳۔ مولانا سعید احمد مجددی، گوجر انوالہ
۴۔ مولانا گل احمد عتیقی، فیصل آباد
۵۔ مولانا صداقت علی
۶۔ مولانا قاضی محمد یوسف
۷۔ مولانا حافظ محمد علی
۸۔ مولانا قاری عبد الرزاق
۹۔ مولانا محمد حنیف اختر، خانیوال
۱۰۔ محمد صدیق ہزاروی، لاہور (مرتب)
روحانی اولاد کے علاوہ آپ کی چار صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ مسمّی محمد ریاض الرحمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو صالح اور پابندِ شریعت بنائے اور علم دین سے بہرہ ور فرمائے۔[۱]
[۱۔ مکتوب حضرت استاذ محترم مولانا محمد غلام فرید رضوی، بنام مرتب مؤرخہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۷۸ء۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)