حضرت علامہ مولانا غلام رسول ہاشم چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا غلام رسول بن خلیفہ پیر محمد ۳، مارچ ۱۸۶۳ء کو شکار پور سندھ میں تولد ہوئے ۔ آپ رئیس العارفین حضرت خواجہ امین شاہ چشتی ؒ کے بڑے خلیفہ مولانا حافظ صاحبڈ نہ چشتی کے پڑپوتے ( یعنی پوتے کے بیٹے ) تھے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدا میں محلہ کی مسجد شریف میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد حضرت مولانا قاضی سید بہادر علی شاہ چشتی ( جو کہ حضرت خواجہ سید محمد گیسودراز چشتی قدس سرہ متوفی ۸۲۵ھ مدفون حیدر آباد دکن کی اولاد میں سے تھے ) سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔
بیعت :
اپنے والد ماجد خلیفہ پیر محمد سے سلسلہ عالیہ چشتیہ صابر یہ میں دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے۔
عادات و خصائل :
بعدفراغت علمی نواب سخی مدد خان مرحوم کی مشہور جامع مسجد کے امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ آپ کا وعظ اثر انداز پر تاثیر تھا۔ شیرین گفتار کے مالک کے ، اس کے علاوہ نامور حکیم بھی تھے۔ پوری زندگی بندگی و معرفت خداوندی اور حب مصطفیٰ ﷺ سے عبارت تھی ۔ ذکر الٰہی ، درود شریف ، تلاوت قرآن مجید اور درس و تدریس آپ کا روز کا معمول تھا۔
شادی و اولاد:
آپ نے تین شادیاں کیں، جن سے پانچ بیٹے تولد ہوئے ۔ بڑے بیٹے میاں شہاب الدین چشتی نے شکار پور سے ہفت روز ہ سندھی اخبار ’’شہباز ‘‘ جاری کیا تھا۔
شاعری :
موصوف بلند پایہ کے شاعر تھے ، علم عروض کے ماہر اور فارسی زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ’’ہاشم ‘‘ تخلص تھا۔ نمونہ کلام :
چوں شوی فارغ از مناسک او
زاہد روضہ نبی می
روضہ دیدہ بگو تو اے احمد
سرورا دستگیر من می
تصنیف و تالیف :
آپ نے تلقین وارشاد، وعظ و نصیحت ، حلقہ ذکر، شعر و شاعری کے ساتھ تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا۔ آپ کی بعض تصانیف کا علم ہو سکا جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ میلاد نامہ ( سندھی ) حضور اکرم ﷺ کے میلاد شریف کا بیان
٭ معراج نامہ ( سندھی ) حضور اکرم ﷺ کے معراج شریف کا بیان
٭ تنبیہ المسلمین ( سندھی )
٭ دیوان ہاشم اس میں سندھی سرائیکی اور فارسی کلام درج ہے۔
وصال :
مولانا غلام رسول ہاشم چشتی نے ۲۷، جون ۱۹۲۶ئ؍۱۳۴۴ھ کو ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی آخری آرامگاہ شکار پور کے قبرستان میں واقع ہے۔ ( ماخوذ: مہران مطبوعہ ۱۹۵۷ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )