حضرت فاضل جلیل مولانا حافظ محمد مظہر الدین
حضرت فاضل جلیل مولانا حافظ محمد مظہر الدین (تذکرہ / سوانح)
حضرت فاضل جلیل مولانا حافظ محمد مظہر الدین راولپنڈی علیہ الرحمۃ
دَورِ حاضرکے سب سے بڑے نعت گو شاعر اور ادیب حضرت علامہ حافظ مظہر الدین بن حضرت علامہ مولانا نواب الدّین (علیہ الرحمۃ) ۱۳۳۲ھ / ۱۹۱۴ء میں بمقام ستکوہا نزد قادیان (ہندوستان) ارائیں خاندان کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد متجر عالم دین تھے اور حضرت حافظ صاحب مدظلہ کی ولادت سے قبل اپنے وطن مالوف قصبہ رمداس ضلع امر تسر سے نقل مکانی کر کے موضع ستکوہا میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی دوران فتنہ قادیانیت کا ظہور ہوا اور آپ نے مرزائیوں سے مشہور تاریخی مقدمہ لڑا جس کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ مسلمانوں کا مرزائیوں سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ پہلی آئینی ضرب تھی جو بالآخر مرزائیوں کو اقلیّت قرار دیے جانے پر منتج ہوئی یہی وجہ ہے کہ علمی حلقوں میں حضرت مولانا نواب الدین علیہ الرحمہ کو فاتح قادیان کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
حضرت مولانا حافظ محمد مظہر الدین کو والد ماجد نے بچپن ہی میں ایک عقیدت مند (مُریدہ) خاتون حافظہ سلمیٰ کے سپرد کیا جو آپ کو ریاست پٹیالہ لے گئیں اور قرآن پاک حفظ کرایا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم موضع ستکوہا میں اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ اور مشہور نعت گو شاعر امیر مینائی کے شاگرد صوفی عبدالرزاق رامپوری سے اور پھر والد ماجد کی وطن مراجعت پر وہاں کے ایک عالم دین سے حاصل کی۔
آستانہ عالیہ علی پور شریف (ضلع سیالکوٹ) اور دار العلوم دیوبند میں کچھ عرصہ حصولِ علم کے بعد آپ نے تکمیلِ درسیات کے لیے مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قدس سرہ کے سامنے زانوئے تلّمذ تہ کیا اور علومِ اسلامیہ کی تکمیل پر دارالعلوم حزب الاحناف لاہور سے سندِ فراغت حاصل کی۔
۱۹۲۹ء میں آپ نے رہبر شریعت و طریقت حضرت خواجہ سراج الحق کرنالی رحمہ اللہ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور بعد ازاں والد ماجد قدس سرہ سے سلسلۂ عالیہ چشتیہ قادریہ میں خلافت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت خواجہ سراج الحق قدس سرہ سے آپ کے والدین کوبیعت کی سعادت حاصل تھی اور حضرت محدثِ اعظم پاکستان علامہ ابو الفضل محمد سردار احمد قادری قدس سرہ اور آپ کے والدین بھی حضرت خواجہ قدس سرہ کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے۔
حضرت علامہ حافظ مظہر الدین مدظلہ دورِ حاضر کے عظیم نعت گو شاعر، بلند پایہ عالمِ دین اور مشہور و معروف صاحبِ قلم ہیں۔ آپ کا قلب اللہ و رسول کی محبت سے سرشار اور قالب مجسمہ اطاعتِ الٰہی و اتّباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
آپ کو آپ کے عشقِ رسول اور عارفانہ کلام کے پیشِ نظر ملک کے مشہور شخصیات نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت حافظ مظہر الدین کے دل کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے اور ان کے قلم کو اس کی مدحت کے لیے مخصوص کرلیا ہے۔ مبدأ فیاض نے ان کو نغر گوئی، جدّت طرازی، بے ساختگی و برجستگی، شیریں بیانی، سلاست و رَوانی کی جو انمول صلاحتیں بخشی ہیں، اُن کا رُخ ہر طرف سے موڑ کر اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت گوئی کی طرف پھیردیا۔ ہماری دُعا ہے کہ یہ بابغۂ روزگار، نعت کے میدان کا یہ بانکا شہسوار تادیر سلامت رہے‘‘۔ [۱]
[۱۔ محمد کرم شاہ، پیر پیشِ لفظ ’’باب جبریل‘‘ ص ۸۔ ۹۔ ۱۲۔]
مشہور شاعر احسان دانش لکھتے ہیں۔
’’حافظ مظہر الدّین صاحب شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، عالم بھی ہیں اور عامل بھی وہ عشقِ رسول میں مستغرق ہیں، زبان سے نسبتاً کم اور آنسوؤں سے زیادہ گفتگو کرتے ہیں‘‘۔
میں نے پاکستان میں بہت کم لوگ حافظ مظہر الدین صاحب جیسے رَقیق القلب اور عاشقِ رسول دیکھے ہیں اور دیکھا جائے، تو نعت کا حق عاشقِ رسول ہی کو پہنچتا ہے اور وہی کلام دلوں میں گداز اور پلکوں پر بادلہ لگاتا ہے۔[۱]
[۱۔ احسان دانش ’’جلوہ گاہ‘‘ ص ۷ ۔ ۸۔]
جناب محمد ایوب صاحب مصنّف ’’نوائے فردا‘‘ حضرت حافظ موصوف کو خراجِ عقیدت ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
’’خوش نصیبی کا کرشمہ کہیئے یار سائی طبع کی کرامت یا عشقِ نبی کا معجزہ، حافظ صاحب نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا منتہا بنا رکھّا ہے۔ ان کے ذوق و شوق کا عالم رسول اور عشقِ رسول سے آباد ہے‘‘۔ [۱]
[۱۔ محمد ایوب، ’’جلوہ گاہ‘‘ ص۵۔]
مشہور روحانی مرکز گولڑہ شریف کے حضرت صاحبزادہ غلام نصیر الدّین مدظلہ اپنے منظوم کلام میں آپ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
مظہر کہ بذوق و شوق فرد است |
|
درراہِ ادب یگانہ مرد است |
|
||
|
||
|
||
|
[۱۔ صاحبزادہ غلام نصیر الدّین ’’بابِِ جبریل‘‘ ص ۱۴۔۱۵۔]
آپ کے علمی و ادبی مضامین، روز نامہ ’’کوہستان‘‘ اور روز نامہ ’’ندائے ملّت‘‘ میں مسلسل چھپتے رہے ہیں۔
آج بھی آپ کا نعتیہ کلام ملک کے مشہور اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتا رہتا ہے۔ سوشلزم کے فتنہ اور پھر تحریک نظامِ مصطفےٰ کے دوران آپ نے قلمی محاذ پر بہت کام کیا مختلف اخباری مضامین اور کالموں کے علاوہ آپ رشحاتِ قلم درج ذیل ہیں۔
۱۔ خاتم المرسلین (۱۹۳۷ء میں حزب الاحناف کی طرف سے شائع ہوئی)
۲۔ شمشیر و سناں (قومی نظمیں)
۳۔ حرب و حزب (قومی نظمیں)
۴۔ تجلیات (نعتیہ مجموعہ)
۵۔ جلوہ گاہ (نعتیہ مجموعہ)
۶۔ بابِ جبریل (نعتیہ مجموعہ)
۷۔ نشانِ راہ (نعتیہ مجموعہ)
۸۔ وادیٔ نیل (جرجی زیدان کے ناول کا اُردو ترجمہ [۱])
[۱۔ مکتوب جناب حافظ مظہر الدین بنامِ مرتب]