حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سلیمان چشتی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 1422 | ذوالقعدہ | 03 |
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سلیمان چشتی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سلیمان چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا مفتی محمد سلیمان چشتی آزاد کشمیر ضلع پونچھ، تحصیل عباس پور، علاقہ چھاترہ ، رقبہ بھنگوال میں ۱۹۳۵ء کو تولد ہوئے۔ آپ کی قوم گجروں کے مشہورقبیلے کا لس راجپوت ہیں۔ آپ کے والد میاں شیر محمد گاوٗں کے امام مسجد تھے۔ آپ کے پانچ بھائی تھے جو کہ اب سب انتقال کر چکے ہیں ۔ جب آپ تین سال کی عمر کو پہنچے تو والد انتقال کر گئے اور کچھ عرصہ کے بعد والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم علاقے کے مشہور عالم حضرت مولانا علی محمد کلروی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ٹیچر عبدالرحیم سے اسکول میںپہلی جماعت پڑھی ۔ اس دوران ۱۹۴۷ء میں عظیم انقلاب برپا ہوا۔ دنیا کے نقشہ پر پاکستان ابھر کر سامنے آیا۔ ۱۹۵۷ء میں جا معہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۰ء میں آرام باغ کراچی میں تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی کی قائم کردہ درسگاہ بحر العلوم میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کی ۱۹۶۲ء میں دارالعلوم امجد یہ کراچی میں زیر تعلیم رہے اور ۱۹۶۴ء میں دارالعلوم امجد یہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے اور بعد میں اسی درسگاہ میں مدرس مقرر ہوئے ۔
درس و تدریس:
۱۹۶۵ء میں مفتی سید شجاعت علی قادری مفتی دارالعلوم امجدیہ ، استاذ القراء قاری محمد طفیل احمد اور مفتی محمود احمد الوری حیدرآبادی وغیرہ اساتذہ کے مشورہ سے ٹنڈوالہیار کی جامع مسجد اسٹیشن روڈ کے محکمہ اوقاف کے امام و خطیب تعینات ہوئے۔ ۱۹۶۶ء میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے ائمہ مساجد کا کورس کیا۔ ۱۹۶۷ء میں جامع مسجد ٹنڈو الہیار کے متصل ’’مدرسہ چشتیہ ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ ۷۲۔ ۱۹۷۳ء میں مرکزی عید گاہ ٹنڈو الہیار کے خطیب مقرر ہوئے اور ۱۹۷۷ء میں عید گاہ میدان میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ کی بنیاد رکھی ۔ ۸۵۔ ۱۹۸۴ء میں ازسر نو جامع مسجد اسٹیشن کی تعمیر شروع کی ۔ آخر وقت تک درس و تدریس اور دیگر دینی خدمات میں سر گرم عمل رہے۔ دوران تعلیم مختلف شہروں میں مثلا : فیصل آباد اور کراچی کی مختلف مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔
شادی و اولاد :
۱۹۶۷ء میں شادی کی جس سے فقط ایک بیٹی تولد ہوئی۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۸۵ء میں برطانیہ کا تبلیغیدورہ کیا۔ وہاں سے حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ مکہ مکرمہ میں حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول اللہ ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔
بیعت :
سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت پیر طریقت سید غلام محی الدین جیلانی رحمتہ اللہ علیہ المعروف ’’بابوجی‘‘ سجادہ نشین آستانہ گولڑہ شریف ضلع راو لپنڈی سے دست بیعت تھے اور ان کے وصال کے بعد پیر طریقت حضرت پیر ابراہیم جان سر ہندی ؒ کی صحبت اختیار کی۔
تلامذہ :
آپ کے نامور شاگردوں کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ مولانا قاری معین الدین بدایونی خطیب شاہی مسجد حیدرآباد
٭ مولانا پروفیسر محمد افضل راو لپنڈی
٭ مولانا محمد اعظم بربانیہ
٭ مولانا سید عبدالرحیم شاہ گوٹھ پیارولنڈ
٭ مولانا محمد قاسم چشتی خطیب ٹنڈو الہیار
٭ مولانا قاری ضیاء الحق خطیب جامع مسجد ٹنڈو الہیار
وصال :
مفتی محمد سلیمان چشتی کشمیری نے تقریبا ۳۶ سال ٹنڈو الہیار میں خدمت دین میں بسر کئے ۔ اپنے خاندان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ مسجد و مدرسہ بنوایا۔ جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اہل سنت پاکستان کی شاخ ٹنڈو الہیار میں قائم کی۔ میلاد النبی ﷺ کا سالانہ جلوس نہایت اہتمام سے نکالا کرتے سالانہ جلسہ و کانفرنس کا بھی انعقاد فرماتے۔ اس طرح ٹنڈو الہیار کی سر زمین پر سر گرمی سے دینی اور سیاسی کا م سر انجام دیئے اور مسلمانوں کی دینی ضرورت پوری فرماتے رہے۔ آپ فتاویٰ بھی دیا کرتے تھے اس کی تدوین و اشاعت بھی ہونی چاہیے ۔ ۱۸، جنوری ۲۰۰۲ء بمطابق ۳، ذوالقعدہ ۱۴۲۲ھ جمعۃ المبارک کے دن بھی طبیعت ٹھیک ٹھاک تھی جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا اور نماز جمعہ سے قبل کی چار سنتیں ادا کر رہے تھے کہ دو رکعت مکمل کرنے کے بعد تیسری رکعت کے پہلے سجدہ میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔
پہلی نماز جنازہ مرکزی عید گاہ ٹنڈو الہیار میں بعد عشاء ۹ بجے آپ کے بھتیجے مولانا محمد قاسم چشتی کی امامت میں ادا کی گئی ۔ دوسری نماز جنازہ آپ کے آبائی گاوٗ ں عباس پورہ میں آپ کے دوسرے بھتیجے مولانا مفتی منیر الزمان چشتی خطیب انگلینڈ کی امامت میں ادا کی گئی اور آزاد کشمیر عباس پور کے نواحی گاوٗں کلراں میں اپنے سسر کی قبر کے برابر میں تدفین ہوئی۔
[آپ کے بھتیجے قاری ضیاء الحق صاحب بن مفتی امیر الزمان صاحب نے ٹنڈو الہیار سے مواد فراہم کیا ، فقیر مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)