خطیب العلماء مولانا نذیر احمد خجندی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی: مولانا نذیر احمد خجندی۔لقب:خطیب العلماء۔آپ کےآباؤاجداد میں سےکچھ بزرگ ثمر قند (ترکستان)کےعلاقہ "خجند"کےرہنےوالےتھے۔اسی مناسبت کی وجہ سےمولانا نےاسی نسبت کو پسند فرمایا۔(جب جب تذکرہ خجندی ہوا:16)۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مولانا نزیر احمد خجندی بن شاہ عبدالحکیم جوش بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن مولانا محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبداللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد دین بن قاضی صوفی حمید الدین صدیقی،علیہم الرحمۃ والرضوان ۔آپ کاسلسلہ نسب سینتیسویں پشت میں امیر المؤمنین خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتاہے۔(ایضاًٍ:21)۔آپ کےآباؤ اجداد میں سے کچھ لوگ مدینۂ منورہ سےتبلیغ ِ دین کےسلسلے میں ریاستِ فرغانہ کےشہر "خجند"پہنچے،اوروہاں سےقاضی صوفی حمید الدین صدیقی علیہ الرحمہ،1525ءکوبابربادشاہ کےہمراہ جہاد فی سبیل اللہ کےلئےہندوستان تشریف لائے،اورقصبہ لاوڑ،ضلع میرٹھ میں سکونت اختیار کی،جہاں اس خاندان کی آٹھ پشتیں گزریں۔حضرت صوفی صاحب ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کی طرف سے اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔(ایضاًٍ:14) خطیب العلماءمولانا نذیر احمد خجندی ،مبلغ اعظم خلیفۂ اعلیٰ حضرت سفیر اسلام حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کےبرادر اکبر،اورقائد ملت اسلامیہ،قائد انقلاب،محسن اہل سنت،مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا امام شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کے تایا ابا ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزبدھ،بوقتِ صبح صادق،13/ربیع الثانی 1305ھ،مطابق 28/دسمبر1888ء،کومیرٹھ میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ کی تعلیم وتربیت ایک علمی وروحانی ماحول میں ہوئی،آپ کےوالد گرامی اورچچا ایک جید عالم دین تھے۔انہوں نےآپ کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی،حسبِ دستورِ زمانہ جب آپ کی عمر چارسال،چار ماہ اور دس دن ہوئی تورسم بسم اللہ ادا کی گئی،اورباقاعدہ تعلیم کاسلسلہ شروع ہوگیا۔سات برس کی عمر میں کلام اللہ شریف مکمل فرمایا۔دس برس کی عمر میں اردو،فارسی حد تکمیل کوپہنچائی اورگیارہویں سال مدرسہ اسلامیہ میرٹھ میں درس ِنظامی کی تعلیم کاسلسلہ شروع ہوا،اسی میں تکمیل درس نظامی ہوئی۔آپ کے اساتذہ میں والد گرامی مولانا عبدالحکیم جوش اور مولانا احمد صاحب علیہماالرحمہ کانام آتاہے۔(ایضاًٍ:24)آپ ایک جید عالم دین کےساتھ ایک خوش الحان قاری،اورمایہ ناز شاعر بھی تھے۔آپ ہندوستان کےصف اول کےشعراء میں شمار ہوتےتھے،آپ کوعربی،فارسی اور اردوادب پر مہارتِ تامہ حاصل تھی،اور تینوں زبانوں میں مشق ِ سخن فرماتےتھے۔اس کے علاوہ ماہرطبیب بھی تھے۔
بیعت وخلافت: آپ کی بیعت قرائن وشواہد سے اپنےوالد ِگرامی حضرت مولانا شاہ عبدالحکیم جوش علیہ الرحمہ یامخدوم حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہما الرحمہ ان دونوں بزرگوں میں سے کسی ایک سےمعلوم ہوتی ہے،اور خلافت کے متعلق فقیر (حافظ رمضان تونسوی) کو جناب ندیم احمد نؔدیم نورانی صاحب نے بتایا کہ "حیاتِ مخدوم الاولیا" میں ہے کہ مولانا نذیر احمد خجندی کو شبیہ ِ غوث الاعظم حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے خلافت حاصل تھی۔بعض علماء نےآپ کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کےخلفاء میں شمار کیا ہے۔(عہدِ رواں کی ایک عبقری شخصیت:13/تخلیق پاکستان میں علماء اہل سنت کا کردار:147)
سیرت وخصائص: عالم باعمل،جامع شریعت وطریقت،صاحبِ اوصافِ حمیدہ وکثیرہ،فقیہ العصر،خطیب العلماء،مرجع الاصفیاء،خانوادۂ صدیق اکبر کےرجلِ رشید،حکیمِ اہل سنت حضرت علامہ مولانا نذیر احمد خجندی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کاشماراس وقت کے جید علماء اہل سنت میں ہوتاتھا۔آپ کا خاندان صدیوں سے ایک علمی وروحانی خاندان چلا آرہاتھا،اور آپ اس خاندان کی علمی وروحانی امانتوں کےوارثِ کامل،اوررجل ِ رشید تھے۔آپ نےاسلاف کی علمی روایات کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ آبیاری بھی فرمائی،دین اسلام کےفروغ اور ملت اسلامیہ کی راہنمائی میں اہم کردار اداکیا۔آپ علیہ الرحمہ ساری زندگی ملت اسلامیہ کی فلاح وبہبود کےلئے کوشاں رہے۔آپ نےبرما میں ایک دینی مدرسہ کھولااورایک سال تک درس دیا،اوراس مدرسہ سےکافی لوگوں نےآپ سےکسبِ علم کیا۔اسی طرح مختلف مقامات جہاں تعلیم کی ضرورت ہوتی تھی،حضرت وہاں اسکول،مدرسہ،اورمسجد کی تعمیر میں خوب حصہ لیتے تھے۔آپ نےبیالیس پرائمری اور دوہائی اسکول قائم فرمائے۔جن سےکثیر تعداد میں لوگوں نےاکستاب علم کیا،اورملت کی خدمت میں اہم کرداراداکیا۔
حضرت مولانا خجندی علیہ الرحمہ کواللہ جل شانہ نےوسعتِ علمی کےساتھ ساتھ انتظامی امور میں بےشمار صلاحیتیں عطاء فرمائی تھیں۔آپ کاہرکام حسنِ انتظام کااعلیٰ شاہکار ہوتاتھا۔آپ جہاں بھی تشریف لےگئےاپنی ایمانی فراست اورانتظامی صلاحیت کی بدولت اہل ایمان کی نگاہوں اورعقیدتوں کامرکزبنے رہے۔ممبئی میں عیدین کااجتماع ایک مثالی اجتماع ہوتاتھا،جس میں کثیر مجمع،اور لاؤڈ اسپیکر کاانتظام اورپھر ایسےمواقع سےفائدہ اٹھاکر مسلمانوں کی ذہن سازی،اور ان کےمستقبل لئے لائحہ عمل اور مسلم قائدین وزعماء کی شرکت اور ان کاخطاب،جس میں علی برادران اور قائد اعظم محمد علی جناح کاخطاب بھی ہوتاتھا۔یہ سب حضرت کی اقتداءمیں عیدین اور جمعہ اداکرتےتھے،آپ کےزہدوتقویٰ اورملت اسلامیہ کی ہمدردی،اوراسلام سےمحبت،اورآپ کےپراثر خطابات سےبہت متائثر تھے۔اسی طرح عید میلادالنبیﷺ کامثالی جلوس،جس کےحسن انتظام کی تعریف غیر مسلم بھی کرتھےتھے۔اسی طرح تحریک ِ خلافت میں آپ اور آپ کےبرادر اکبر حضرت علامہ شاہ احمدمختار صدیقی اور برادراصغر مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کا کردارسنہری حروف سےلکھنےکےقابل ہے۔اس کےلئے آپ نےقیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔
اسی طرح مسلم لیگ کی تنظیم ِنواورترقی میں آپ کااہم کردارہے۔جب "آل انڈیا مسلم لیگ"قائم ہوئی تو آپ اس کےاولین ارکان میں شامل ہوئے۔آل انڈیا مسلم لیگ کااجلاس 1930ءکوالہ آبادمیں مفکراسلام علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ کی زیر صدارت ہوا،جوبالآخر قیام پاکستان کاسنگ میل ثابت ہوا۔اس کےپیچھے ہمارےاکابرین کی شب وروز کی محنتیں،اور ان کاخلوص شامل تھا۔اس کےبعد جمعیت العلماء قائم ہوئی تو اس میں بڑےبڑے زعمائے ملت شریک ہوئے،اس کی صدارت وقیادت کےلئے بالاتفاق حضرت قبلہ ہی کی ذاتِ گرامی منتخب ہوئی۔
مولانانذیر احمد خجندی علیہ الرحمہ کی جہاں تعلیمی،قومی،ملی،سیاسی خدمات باعث افتخار ہیں،وہیں آپ کی قلمی نگارشات لائق صد تحسین ہیں،صحافت میں آپ کی بڑی خدمات ہیں،آپ نےاس میں مذہبی اورقومی مضامین لکھے،جس میں تحریک خلافت،تحریک پاکستان کی علمی وادبی حلقوں میں راہ ہموار کی،اسی طرح شعار اہلسنت کابھرپور دفاع کیا،اور ایام کی مناسبت سےمفید مضامین تحریر فرمائے،اسی طرح اللہ جل شانہ نےآپ کوعربی وفارسی اوراردومیں نظم اورنثر دونوں میں مہارت عطاء فرمائی تھی۔آپ کاشمار اس وقت کےصف اول کےشعراء میں ہوتاتھا۔آپ ذوق لطیف کےمالک تھے۔اس کےلئے بڑےمشاعروں کااہتمام فرماتےتھے،جس میں ملک بھر سےشعراءمشق سخن فرماتےتھے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سےتعلقات: بانی پاکستان قاٖئد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ سےحضرت مولانا خجندی کےبڑےگہرے مراسم وتعلقات تھے۔قائد اعظم ممبئی میں آپ کےپیچھے عیدین اور جمعےکی نماز اداکرتےتھے،اورعید کےموقع پر آپ کی خدمت میں ایک قیمتی شال پیش کرتےتھے۔(جب جب تذکرہ خجندی ہوا:95)۔قیام پاکستان کےتین دن بعدبھی بانیِ پاکستان نےپہلی نمازِ عید امام اہلسنت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کی اقتداء میں ادافرمائی۔(ایضاً:93)
قائداعظم محمدعلی جناح کانکاح: قائداعظم محمد علی جناح کی اہلیہ نے18/اپریل 1918ء کو آپ کےدستِ اقدس پراسلام قبول کیا،آپ نےاس کانام "مریم بائی"رکھا(لیکن رشتہ ازدواج میں منسلک ہونےکےبعد"رتی جناح/رتن بائی"کےنام سےشہرت پائی)اور اہل سنت وجماعت کے طریقے پر آپ نے ان کانکاح پڑھایا۔(ایضاً:96)
تذکرہ علماء اہل سنت میں ہے: فراغت کے بعد صحافت کی راہ کو اپنایا، میرٹھ سے تاجر اخبار جاری کیا اور آپ کی زندگی کا زیادہ حصہ ممبئی میں گذرا، حضرت مولانا شاہ خیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی تعمیر کی ہوئی مسجد خیر الدین کے آپ امام وخطیب اور ناظم تھے، آزاد پارک میں عیدین کے امام آپ ہی تھے، بمبئی کی قدیم جمعیۃ علماء کے ناظم بھی رہے، تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا، اور اسی سلسلہ میں جیل گئے،آپ جادوبیان مقرر،اور فن مناظرہ میں آپ کامل دستگاہ تھی،دیوبندیوں،وہابیوں اور آریوں سے مناظرے کیے اور مذکورہ فرقۂ باطلہ کو ذلتیں دیں۔ آپ نے اشاعت اسلام کے لیے کافی کوشش کی،تبلیغ اسلام کےلیے برما وغیرہ کا سفر کیا، انتقال سے ڈیڑھ برس پہلے آپ مدینہ منورہ چلے گئے تھے، بڑے ذوق وشوق سے پنج وقتہ نماز مسجد نبوی میں ادا کرتے تھے اور صلوٰۃ وسلام کا نذرانہ بارگاہِ رسالت میں پیش کرتےتھے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال محقق مولانا ندیم احمد ندیم نورانی زیدمجدہ وعلمہ کی تحقیق کےمطابق 6/شعبان المعظم 1368ھ،مطابق جون/1949ء
کومدینۃ المنورہ میں ہوا،اورجنت البقیع میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کےقدموں میں آسودہ خاک ہوئے۔
ماخذومراجع: جب جب تذکرہ خجندی ہوا۔تذکرہ علماء اہل سنت۔