حضرت علامہ مولانا قادر بخش قاسمی
حضرت علامہ مولانا قادر بخش قاسمی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ مولانا قادر بخش قاسمی رحمۃ اللہ علیہ
خطیب اہل سنت مولانا علامہ قادر بخش بن محمد مٹھل سومرو گوٹھ لدھان نزد خیر پور ناتھن شاہ ضلع دادو میں ۱۹۴۲ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
آبائی گوٹھ میں اسکول سے فائنل کا امتحان پاس کرکے ، حصول تعلیم کیلئے سفر اختیار کیا۔ ۱۹۵۴ء کو پٹی شریف ( نزد خانپور ضلع دادو) کے مدرسہ میں داخلہ لے کر دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔ ناظرہ قرآن مجید ، فارسی ، صرف ، نحو، منطق ، فقہ ، تفسیر و حدیث کی کتب کا درس لیا ۔ غربت اور فاقہ کشی کے باجود ہمت صبر اور ثابت قدمی سے حصول علم کے لئے شب و روز محنت و مشقت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ۱۹۵۹ء کو مدرسہ پٹی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس دوران درج ذیل اساتذہ سے استفادہ کیا:
۱۔ مولانا عبدالرحمن جونیجو
۲۔ مولانا محمد صالح جونیجو وغیرہ
خطابت :
بعد فراغت ، زمیندار حاجی محمد یوسف چانڈیو نے جامع مسجد غوثیہ سیتاروڈ ( رحمانی نگر ضلع دادو سندھ ) میں ۱۹۶۳ء کو آپ کو امام و خطیب مقرر کیا ۔ وہ جمعہ کے روز تقریر کرتے مضافات کے علاوہ دور درازعلاقوں سے لوگ ان کا خطاب سننے کے لئے رحمانی نگر سویر پہنچ جاتے تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ خطاب سن سکیں ۔ وہ مجمعے میں کھڑے ہوتے تو اپنی خوش بیانی اور شیر ین زبانی سے مجمع پر چھا جاتے ۔ سندھی کے قادر الکلام خطیب اور پر جوش مقرر کے حوالہ سے سندھ بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ مولانا کا خطاب ، زور خطابت کا مرہون منت تھا بلکہ علمی فکری اعتقادی و نظر یاتی دلائل کے حوالہ سے شہرت رکھتا تھا۔ وہابیت کے علاوہ شیعیت کے متعلق بھی دلیری و بہادری کے ساتھ احقائق حق و ابطال باطن کا حق ادا کرتے رہے۔ شیعیت کے باطل نظریات پر جس طرح وہ تفصیل سے بات کرتے تھے اس طرح بہت کم خطباء بول سکتے ہیں ۔ قرآن ، حدیث ، تفسیر ، فقہ کے علاوہ مخالفین کی بنیادی کتب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔
درگاہ عالیہ حضرت مشوری شریف کے سالانہ جشن میلاد النبی ﷺ مع تقریب دستار فضیلت کے موقعہ پر رات کے وقت ہر سال آپ کا خطاب ہوتا تھا۔ ایک بار سردیوں کے موسم میں رات کے وقت کھڑے کھڑے مولانا نے چار گھنٹے کا خطاب کیا جو کہ اب بھی فقیرکی آنکھوں کے سامنے ہے۔
مدرسہ کا قیام :
جامع مسجد غوثیہ میں۱۹۶۶ء کو ’’مدرسہ عین الفیوض ‘‘کی بنیاد رکھی ۔ جس میں ناظرہ حفظ کے علاوہ درس نظامی کی کلاس کا اہتمام کیا گیا۔ جہاں سے کئی لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوئیں۔ ۱۹۸۵ء کو مدرسہ کا نام تبدیل کرکے ’’مدرسہ عربیہ قادریہ قاسمیہ ‘‘ تجویز فرمایا۔ مدرسہ کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں آپ کے پیر خانہ کے علاوہ سند ھ کے نامور علماء و مشاہیر حضرات کو مدعو کیا جاتا تھا۔
بیعت:
۱۹۶۸ء کو آپ سندھ کے حضرت علامہ مفتی خواجہ محمد قاسم مشوری قدس اللہ سرہ الاقدس کے دست اقدس پر ’’سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ ‘‘ میں بیعت ہوئے۔ بعد بیعت آپ نے حضرت قبلہ عالم کی صحبت کو زندگی کے ساتھ لازم کر دیا ۔ دورہٗ حدیث کے دوران بھی بڑی دلچپسی کے ساتھ شریک رہے اور بھر پوراستفادہ فرماتے تھے اس کے علاوہ فقہی مسائل ، نزاعی مسائل ، اعتقادی و نظریاتی مسائل میں بھی حضرت کے افدات سے اپنے دامن مراد کو بھرتے تھے۔
خدمت خلق :
حضرت قبلہ کی صحبت سراپا نعمت نے آپ کو خدمت خلق کا جذبہ عطا فرمایا، آپ بعد فجرتا ظہر درس و تدریس کے شغل میں مصروف رہتے بعد ظہر تا عصر تعویذات دیتے ۔ بعد نماز عشاء مسجد غوثیہ میں محفل ذکر شریف منعقد کرتے جس میں جماعت کے ساتھ ذکر جہر کا ورد ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ رات کو تقریبا تقریبات میں مدعو ہوتے ۔ اس طرح موصوف دن رات اسلام و سنیت اور خدمت خلق کے عمل بامقصد میں مصروف عمل رہتے ۔ اور یہ سارا کام فی سبیل اللہ کے جذبہ سے ہوتا ، تقریر یا تعویذکے لئے کسی سے کوئی رقم طے نہیں فرماتے تھے۔
ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی رضی اللہ عنہ کی یاد میں ’’محفل گیارہویںشریف ‘‘بڑی عقیدت و احترام سے منعقد کرتے جس میں تقریر کے لئے مختلف علماء کو مدعو کیا جاتا اس کے بعد لنگر شریف کا اہتمام ہوتا تھا۔
شادی و اولاد :
آپ نے دو شادیاں کی ۔ پہلی بیوی سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔
۱۔ غلام مرتضیٰ
۲۔ غلام عباس
۳۔ مشتاق احمد
دوسری بیوی سے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تولد ہوئیں ۔
۱۔ محمد عرف نالے مٹھا
۲۔ عبدالعزیز
۳۔ وقار احمد
۴۔ محمد اویس
تلامذہ :
آپ کے بعض شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں :
٭ مولانا محمد قاسم چنہ گوٹھ آندل تونیہ نزد شاہ پنجواسٹیشن
٭ مولانا کریم بخش سومرو گوٹھ خیر پور ناتھن شاہ ضلع دادو
٭ مولانا منیر احمد چانڈیو ضلع ٹھٹھہ
٭ مولانا حزب اللہ سولنگی گوٹھ دڑاما چھی نزد ککڑ ضلع دادو
٭ مولانا برکت علی شر بلوچ خطیب مسجد غوثیہ پڈعیدن اسٹیشن ضلع نوابشاہ
وصال :
۱۹۹۶ء میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔ شگر کا مرض تو پہلے سے لاحق تھا بیماری و علالت نے جسمانی طور پر کافی کمزور و ضعیف کر دیا تھا لیکن مرض و تکلیف کے باوجود نماز کی پابند ی رہی ۔ تین سال کے بعد ۲۹، ذوالحجہ ۱۴۱۹ھ بمطابق ۱۷، اپریل ۱۹۹۹ء بروز ہفتہ سول ہسپتال دادو میں ۵۷ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ صاحبزادہ پروفیسر حافظ منظور احمد مشوری صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی ، حضرت صاحبزادہ قبلہ مولانا منیر احمد صاحب مشوری نے دعا کی۔ مدرسہ عربیہ قادریہ قاسمیہ رحمانی نگر میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔
[مولانا مرحوم کے صاحبزادے فقیر غلام عباس سومرو سے محترم قاری حمزہ بروہی ( نیو سبزی منڈی کراچی ) نے مواد حاصل کر کے بھجوایا اور راقم نے مضمون ترتیب دیا۔ فقیر دونوں حضرات کا مشکور ہے۔ راشدی ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت )