مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی
مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی (تذکرہ / سوانح)
مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔لقب: فخر العلماء،مبلغ اسلام،شیخ العرب والعجم،مجاہد جنگ آزادی۔والد کااسم گرامی: مولانا خلیل الرحمن۔سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے حضرت عثمان بن عفان سے ملتاہے۔(مہر منیر:398)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت جمادی الاولیٰ/1233ھ،مطابق مارچ/1818ء کو’’محلہ دربار کلاں ‘‘کیرانہ ضلع مظفر نگراترپردیش (انڈیا) میں ہوئی۔(ایضا:310/مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی:2)
تحصیلِ علم: بارہ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ مکمل کیا،اور فارسی وعربی کی ابتدائی کتب پڑھیں،پھر تحصیل علم کےشوق میں دہلی گئے،وہاں زیادہ تر حضرت مولانا محمد حیات دہلوی(خلیفہ حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی) سے پڑھا،ان کے علاوہ حضرت مولانا عبدالرحمن چشتی،حضرت مولانا احمد علی مظفر نگری،حضرت مفتی سعد اللہ مرادآبادی( مرید حضرت آل احمد اچھے میاں)حضرت مولانا امام بخش اصبہانی سے درس نظامی کی تکمیل کی،اور دورۂ حدیث حضرت شاہ عبدالغنی نقشبندی سے کیا۔حکیم فیض محمد سے طب اور مصنف لوگاثم سے ریاضی پڑھی۔(علیہم الرحمۃ)
بیعت وخلافت: غوث الاسلام،فاتحِ قادیانیت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں مکۃ المکرمہ میں طالب ہوئے۔(مہرِ منیر:120/مہر انور:333)
سیرت وخصائص:فاتحِ عیسائیت،حامیِ اہل سنت،دافعِ اہل بدعت،قاطعِ وہابیت ودیوبندیت،مبلغ اسلام،شیخ العرب والعجم،جامع شریعت وطریقت،فخرالعلماء،سندالاصفیاء،محدث ِحرم،محسنِ اہل حرم،مجاہدِجنگ آزادی حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔آپگذشتہ صدی کی اہل اسلام کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ نےساری زندگی فروغ اسلام ،اشاعتِ اسلام،اور ترقی اسلام میں گزاری۔اس وقت اہل اسلام انتہائی کرب وتکلیف کی زندگی گزاررہے تھے۔حکومت پہلے چھن گئی تھی،اورایمان پر بھی فرنگیوں نے ڈاکے ڈالنا شروع کردیئے تھے۔انگریز نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کےلئےملک کےطول وعرض میں مشن اسکولز،اور مشن ہسپتال،اور مشن فنڈز قائم کیے۔پادریوں کی جماعتیں اہل اسلام کے خلاف سرگرم ہوگئیں،بازاروں،شاہراہوں،محلوں میں اسلام کےخلاف زہر اگلتے،دل آزار لٹریچر تقسیم کرتےپھرتے۔پادری فنڈر شاہی مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوکر علماء اسلام کو چیلنج کرتا کہ ’’مناظرہ کرکے مجھے مسلمان بنالو،یا خود عیسائی ہوجاؤ‘‘۔پادری فنڈر عربی فارسی اور علوم اسلامیہ میں باظابطہ مہارت رکھتا تھا،اورہندوستانی مسلمانوں کو عیسائیت سے دور کاواسطہ بھی نہیں تھا۔علماء بھی اس مذہب سے ناواقف تھے،اور انہون نے اس طرف کبھی توجہ نہیں کی تھی۔پادری مذکور نےجگہ جگہ علماء سے گفتگو کی لیکن اسےمطمئن نہ کرسکے،اور تسلی بخش جواب نہ دےسکے،جس سے عوام کےایمان کا خطرہ پیداہونے لگاتھا۔البتہ چند محققین تھےان میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویبھی تھے۔آپ نے عیسائیت کے رد میں ایک کتاب’’ازالۃ الاوہام‘‘ تالیف کی۔اس کتاب کی تصنیف پر خاتم النبیین،سید المرسلینﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے۔تاہم پادریوں کی یلغار ہندوستان کےقریہ قریہ اور بستی بستی تک پہنچ چکی تھی۔(مہر انور:310)
فنڈر پادری سےمناظرہ اور اس کو شکست فاش: محلہ عبدالمسیح آگرہ میں 11/رجب المرجب 1270ھ،مطابق 10/اپریل 1854ء کو علی الصبح مناظرہ طےہوا۔اہل اسلام کی طرف سے مناظر ِاول مولانا کیرانوی،مناظر دوم ڈاکٹر وزیر خان،اور مولانا فیض احمد بدایونی مقرر ہوئے۔عیسائیوں کی طرف سے مناظر اول پادری فنڈر،مناظر دوم پادری فرنچ تھے۔اس مناظرے میں علماء،عوام وحکام کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔پہلے پادری فنڈر نے اسلام کےبارے میں گفتگو کی۔اس کےجواب میں مولانا کیراانوی کھڑے ہوئے اور انجیل کےنسخ وتحریف پر بڑی فاضلانہ بحث کی اور عیسائیوں کی کتب سے نسخ وتحریف ثابت کردی،چنانچہ پادری فنڈر سات آٹھ جگہ تحریف کا قائل ہوگیا۔اور اس سے تحریر لےلی گئی۔مناظرہ تین دن جاری رہا۔دوسرےدن تعداد بہت زیادہ تھی۔پادری اور اس کےحواری جواب دینےسے قاصررہے،اورٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔یہ دن بغیر اختتامی بحث کےختم ہوگیا۔تیسرے روز حتمی فیصلے کےلئےاجلاس رکھا گیا۔لیکن تیسرے روز رسول اللہﷺکےشیر کےسامنے اسے آنے کی جرأت نہیں ہوئی اور وہ ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا۔
ترکی میں پادری کا فرار: اس دور میں حجاز مقدس ترکی کی خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور سلطان عبد المجید خلیفہ تھے۔ ہندوستان میں مولانا رحمت اللہ کیرانویکےہاتھوں شکست کھانےوالےپادری فنڈرنےترکی کارخ کیا،اوراستنبول جو اس دور میں قسطنطنیہ کہلاتا تھا،خلافتِ عثمانیہ کا دارالخلافہ اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا۔فنڈرنےوہاں یہ تاثردیاکہ ہندوستان کےعلماء اسلام کےبارے میں ان کےاعتراضات کا جواب نہیں دےسکےاس لیےوہ عالم اسلام کےمرکزقسطنطنیہ میں آئے ہیں تاکہ یہاں کےعلماءمیں سےاگرکسی میں ہمت ہوتو ان کے اعتراضات کا سامنا کرے۔
سلطان عبد المجیدمرحوم نےحالات کی تحقیق کےلیےحرمین شریفین میں علمائےکرام کولکھا کہ حج کےموقع پرہندوستان سےلوگ آئے ہوں توان سےصورت حال معلوم کر کےانہیں صحیح رپورٹ دی جائے۔ جب سلطان کاپیغام مکہ مکرمہ پہنچاتومولاناکیرانوی ہجرت کرکے مکہ مکرمہ میں بسیراکرچکے تھے۔ علمائےکرام نےسلطان کو لکھا کہ جس ہندوستانی عالم دین سےپادری فنڈرکامقابلہ ہواتھا وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں۔ چنانچہ سلطان عبد المجید مرحوم نےمولانارحمت اللہ کیرانوی کوقسطنطنیہ بلالیااورپادری فنڈرکودعوت دی کہ وہ مولانا سےجس موضوع پرچاہےمناظرہ کرلیں۔ پادری فنڈرکوجب معلوم ہوا کہ ان سےمناظرےکےلیےوہی آگرہ والےمولانا رحمت اللہ آگئے ہیں تو اس نےترکی سےبھی راہِ فراراختیارکرنےمیں عافیت جانی اور فرار ہوگئے۔خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئےاورمولانا رحمت اللہ کیرانویسےفرمائش کی کہ وہ اسلام اورمسیحیت کے حوالے سےمتعلقہ مسائل پرمبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر پوری دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نےاسےتقسیم کرایا۔یہ آپ کابہت بڑا کارنامہ ہے،اس سےزیادہ جامع کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی گئی۔یہ کتاب عربی زبان میں ہے۔(مہر منیر:399)
جنگِ آزادی میں روشن کردار: جہاد آزادی 1857ء میں مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی،مولانا کفایت علی کافی ،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مفتی صدرالدین دہلوی،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،حاجی امداداللہ مہاجر مکی،مولانا رضا علی خان بریلوی علیہم الرحمہ۔ان علماء کرام نے جہاد آزادی میں وہ کارنامے انجام دئیے کہ قرون اولی ٰ کے مسلمانوں کی یا د تازہ ہوگئی۔اگر ان علماء کرام کی قربانیاں نہ ہوتیں توقیام پاکستان کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔مولانا کیرانوی کی عظمت ومقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب جہاد آزادی شروع ہوا تو جامع مسجد کیرانہ کی سیڑھیوں پر نقارہ پر لوگوں کوجمع کیا جاتااور یہ اعلان ہوتا۔’’ملک خداکا،اور حکُم مولانا رحمت اللہ کا‘‘۔اس کےبعد آپ کی تقریر ہوتی لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی۔آپ نےانگریز کوناکوں چنے چبوادئیے تھےلیکن اپنوں کی مخبری وغداری،اورعدم مرکز وتنظیم کی وجہ سے ناکامی پرحجاز مقدس کی طرف ہجرت فرمائی۔آپ کےوارنٹ گرفتاری جاری ہوئےایک ہزار انعام مقررکیاگیا۔تلاش میں ناکامی پر آپ کی جائیداد نیلام کردی گئی۔(مہر انور:317)
اہل حرم پر احسان: جب آپ مکۃ المکرمہ تشریف لےگئے توآپ نےمحسوس کیا کہ یہاں ایک ایسی درسگاہ ہونی چاہیے کہ جہاں پوری دنیا سےمتلاشیانِ علم آکر علم حاصل کرسکیں،کیونکہ مکۃ المکرمہ کوئی ایسی درسگاہ موجود نہیں تھی۔چھوٹے چھوٹے مکتب تھے۔چنانچہ کلکتہ کی ایک صاحب حیثیت خاتون ’’صولت النساء بیگم‘‘کی رقم سےایک عظیم درسگاہ بنام’’مدرسہ صولتیہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔جہاں پوری دنیاسےتقریباً چھ،سات سو طلباء قیام وطعام کی سہولت کےساتھ مدرسے میں تعلیم حاصل کرتےتھے۔(مہرانور:318)
تلبیس ذریت ِابلیس: علماء دیوبند کاآج تک یہی پروپیگنڈہ ہے کہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہمارےہم نواتھے،اور ان کےنام پر لوگوں کوگمراہ کرنےکےلئےمختلف مقامات پر ان کےنام کےمدارس ومساجد بنائے ہوئے ہیں۔یہ ایک مولانا کیرانوی کیا،علماء دیوبند نےہراس شخص کو’’دیوبندیانے‘‘کی صف میں لانے کی کوشش کی جس نے کھلم کھلا ان کی تضلیل وتکفیر نہیں کی حالانکہ اس وقت حالات مختلف تھے۔چنانچہ ان کےمشہور عالم مولوی خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں:’’اس آخر وقت میں اب مولوی رحمت اللہ صاحب تمام علماء مکہ پر فائق ہیں،اور باقرار علماء ِ مکہ اعلم ہیں‘‘۔(مہر انور:321/بحوالہ براہین قاطعہ:263)۔یہ تعریف وتوصیف اس لئے کی جارہی ہے تاکہ عام مسلمانوں میں مولانا کیرانوی سےہماری وابستگی کا چرچہ رہے۔ورنہ حقیقت میں مولانا عبدالسمیع رام پوری،مولانا غلام دستگیر قصوری،مولانا کیرانوی ایک ہی صف اور عقیدہ کےآدمی ہیں۔
حقیقت: قارئین کرام!مولانا کیرانوی کاعقیدہ ان کی ان تقریضات اورہماری آنےوالی تحریرات سےخوب واضح ہوجائے گا۔جشن ِ دیوبند،جشن جمعیت وغیرہ منانےوالے،اور جشن عید میلادالنبیﷺکوشرک وبدعت کہنے والے دیکھیں! کہ حضرت مولانا کیرانویمیلاد النبیﷺکےبارے میں کیامشرب رکھتےتھے۔فرمایا:’’میرے اساتذۂ کرام(آپ شاہ ولی اللہ،شاہ عبدالعزیز علیہمالرحمہ کےشاگردوں کےشاگرد ہیں)کا اور میراعقیدہ مولد شریف (میلادالنبیﷺ منانے)کےباب میں قدیم سےیہی تھااور یہی ہے بلکہ بحلف سچ سچ ظاہر کرتاہوں کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ ؏:بریں زیستم ۔۔۔ہم بریں بگزرم‘‘۔کہ اسی پر جیوں اور اسی عقیدے پر دنیا سے جاؤں۔
انوار ِساطعہ اور تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل پر جوآپ نےتقریظیں تحریر فرمائی ہیں۔وہ ان کےلئے ’’تازیانہ عبرت ہیں‘‘ لیکن اس کےباوجود یہ دجل وفریب،اور کذب بیانی سےعوام کو گمراہ کررہے ہیں۔چند اقتباسات پر اکتفا کرتاہوں۔آپ فرماتے ہیں:’’سو کہتاہوں کہ میں مولوی رشید کو رشید سمجھتا تھا۔مگر میرے گمان کےخلاف کچھ اور ہی نکلے‘‘۔پھر فرمایا:’’ میں بھی اس زمانے کے حالات اور حضرت رشید اور ان کےچیلوں چانٹوں کی تقریر اور تحریر سے پناہ مانگتاہوں‘‘۔مزید تفصیل کےلئے انوار ساطعہ،تقدیس الوکیل،اور مہر انور ،مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا مطالعہ نہایت مفید ہوگا(تونسویؔ غفرلہ)
غوث الاسلام حضرت سید نا پیر مہر علی شاہ گولڑوی سےعقیدت: مولانا رحمت اللہ کیرانویکےشاگرد قاری عبداللہ الہ آبادیکےایک خط میں تحریرہے کہ مولانا کےوصال کےوقت میں موجود تھا۔وہ اپنی بیماری کےدوران فرماتےتھے:’’ گولڑہ جانے کوجی چاہتاہے،اور وصال سے تھوڑی دیر قبل فرمایا کہ میری آنکھوں کے سامنےپیر صاحب کاوہ سبز رومال پھر رہاہے‘‘۔اس وقت دیگر افراد آپ کی خدمت میں موجود تھے سب ان باتوں کی تصدیق کرتےتھے۔(مہر منیر:120)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 22/رمضان المبارک 1308ھ مطابق یکم مئی 1891ءکوہوا۔جنت المعلیٰ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کےجوار میں دفن ہوئے۔آپ کےساتھ مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،شیخ الدلائل مولاناشاہ عبدا لحق مکی علیہم الرحمہ آرام فرماہیں۔
ماخذ ومراجع: مہر منیر۔مہر انور۔مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔