حضرت علامہ مفتی عبدالسلام سنبھلی
حضرت علامہ مفتی عبدالسلام سنبھلی (تذکرہ / سوانح)
مخدوم ملت مفتی محمد عبدالسلام رضوی سنبھلی
بانی فیض العلوم سرائے ترین سنبھل مراد آباد
ولادت
مخدوم ملت حضرت الشاہ مولانا مفتی محمد عبدالسلام قادری رضوی بن الشیخ احمد بن اللہ ابن الشیخ حافظ حکیم اللہ بن الشیخ عظیم اللہ بن الشیخ مکارم کی ولادت شمالی ہند کے مشہور و معروف مرودم خیز علاقہ سنبھل ضلع مراد آباد کی ایک صنعتی بستی سرائے ٹرین کےمحلہ نواب خیل میں ایک علمی وروحانی گھرانےکے اندر غالباً ۱۳۲۳ھ؍۱۹۰۵ء میں ہوئی۔
تعلیم وتربیت
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ ابھی دو ہی سال کے تھے کہ سر سے والد ماجد کا سایۂ عاطفت اٹھ گیا اور پرورش کا بار والدہ ماجدہ کے زیر سایہ بڑے بڑے بھائیوں نے برداشت کیا، اور نہ صرف پرورش ہی کا بار اٹھایا بلکہ عمدہ تربیت اور اس کے ساتھ ساتھ زیور علم سے آراستہ کرنے میں بڑی جانفشانی سے کام لیا۔
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کی تعلیم کا آغاز عم مکرم الشیخ حافظ عصمت اللہ سے ہوا۔ انہوں نے اپنے ہونہار حوصلہ مند بھتیجے کو بچپن ہی میں ظاہری تعلیم کے ساتھ سلوک کے مقامات بھی طے کرادئیے تھے۔ ناظرہ قرآن کریم کے دوران مفتی عبدالسلام کے دفور شوق کو دیکھ کر عم مکرم نے حافظ شروع کرادیا۔ چونکہ اس وقت خانگی حالات مالی طور پر بہت بہتر نہ تھے اس لے اوقات درس کےعلاوہ بقیہ اوقات میں مفتی عبدالسلام اپنے بھائیوں کے ساتھ کام کرتے اور ان کا ہاتھ بٹاتے۔ اس وقت مفتی عبدالسلام کا آبائی پیشہ سینگ کی کنگھیاں بنانا اور انکی تجارت کرنا تھا۔ تکمیل حفظ کے بعد بستی ہی کے ایک مکتب میں مولوی عبداللہ سے فارسی شروع کردی۔ کچھ عرصہ کے بعد عربی کا آغاز بھی یہیں سے کردیا۔
حصول تعلیم میں ذوق سلیم اور غیر معمولی وفور شوق کو دیکھ کر مفتی عبدالسلام کے بڑے بھائی شیخ عبدالرحمٰن (بھتیاجی) شیخ عبدالصمد اور خسر شیخ کلن نیز محلہ کے چند دیگر مغزز حضرات آپ کو مدرسہ اجمل العلوم سنبھل میں اجمل العلماء حضرت مفتی محمد اجمل شاہ قادری رضوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا حضور ان کا داخلہ فرمالیں۔ اور ان کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں۔ چنانچہ اسی روز مفتی محمد اجمل شاہ نعیمی رضوی نے مفتی عبدالسلام کو داخل درس فرمالیا۔ اور مکمل نو سال تک علوم ظاہری وباطنی کی تشنگی شوق کی سیرابی عطا فرمائی اور پھر ان عنایات کو صرف درس گاہ حدوں تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ کارج از درس اقوات میں بھی اپنی نظر کیمیا اثر سے علم وفن اور عشق وعرفان کے وہ جام پلائے جو مفتی عبدالسلام کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمیہ بن گئے۔
فراغت
۲۰؍شعبان المعظم ۱۳۵۵ھ؍۱۹۳۶ء کے عظیم الشان سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں قوم و ملت کے بیشمار جلۂ علماء ومائخ عطام کے مقدس ہاتھوں تکمیل علوم نبویہ کا تاج زریں مفتی عبدالسلام کے زیب سر ہوا۔
جامعہ اسلامیہ کا قیام
وہابیت کدۂ سرائے ترین سنبھل کو شنیت کی ضیا پاشیوں سے منور کرنے اور اجتماعی زندگی کو اعتقادی رنگ دینے کے لیے فعال ادارہ کی سخت ضرورت کے پیش نظر فراغت کے دوسرےہی سال ۱۳۵۶ھ؍۱۹۳۷ء میں مفتی عبدالسلام نے محلہ کی ایک وسیع مسجد رستم سے متصل ایک مکتب کی بنیاد ڈالی۔ جس میں مفتی عبدالسلام کےمحسن ومشفق استاذ اجمل العلماء مفتی محمد اجمل شاہ رضوی کی خواہش و دعوت پر تقریباً پندرہ سے زائد جلۂ علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ اس مکتب کی سب سےپہلی اینٹ عارف باللہ الحاج الشاہ عبدالمجید آنولوی (والد ماجد حضرت علامہ عبدالحفیظ مفتی آگرہ) نے رکھی، پھر حسبِ ترتیب و مراتب دوسرےجلیل القدر علماء ومشائخ نے۔
آغاز درس وتدریس
چونکہ مفتی عبدالسلام کی بستی آپ کی خدمت کی زیادہ مستحق تھی۔ اس لیے قیام جامعہ سلامیہ کے بعد جامعہ سلامیہ ہی میں بحیثیت صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کام کرنے لگے، اور تقریباً چودہ سال مسلسل جم کر تدریسی، تبلیغی اور فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دیں۔ اس طرح مفتی عبدالسلام کے درس وتدریس کا آغاز اسی دارالعلوم جامعہ سلامیہ سرائے ترین سنبھل ہی سے ہوتا ہے۔
دینی وملی خدمات
بد عقیدہ علماء وہابیہ نے سرائے ترین کو اپنی فکر کواپنی تحریک کی آماجگاہ اور وہاں کی اعتقادی فجا کو مسموم کر رکھا تھا۔ مفتی عبدالسلام نے اس ظلمت کدہ کو سنیت کی ضیاء پاشیوں سے منورکرنے کےلیےدن و رات ایک کردیا۔ سب سےپہلے ایک ادارہ قائم فرمایا جس سے علماء وفضلاء پیدا ہوئے، جگہ جگہ جلسے منعقد ہوئے قدم قدم پر وعظم وتبلیغ کی بز میں سجائیں، مواعظ حسنیہ کے ذریعہ عوام کے تاریک سن یوں کو نور سنیت سے روشن و منور فرمایا۔ جلوس عید میلاد النبیﷺ کو جاری فرمایا۔ ایصال ثواب کی مردہ سنت کو زندہ فرمایا۔ مکانوں مسجدوں میں گیارہویں شریف بارہویں شریف وغیرہ کو رواج دیا۔
(صلوٰۃ) کی تحریک چلائی اور بیشمار مسجدوں کونبوت ورسالت کے عشق پر ور نعروں سےمالا مال فرمایا، اذان قبر کو جاری فرمایا، میلاد قیام اور صلاۃ وسلام کو زیادہ سے زیادہ فروغ بخشا، یہ مفتی عبدالسلام کی انتھک کوششوں ہی کا نتیجہ تھا کہ اس وہابیت و جہالت کدہ میں ورِ علم و سن یت کی بیشمار قندیلیں روشن ہوگئیں۔
میرٹھ روانگی
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمۃ ۱۳۷۰ھ؍۱۹۵۱ء کے اوائل میں امام النحو صدر العلماء مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ کی دعوت اور اصرار پر میرٹھ مدرسہ اسلامیہ قومیہ میں بحیثیت صدر المدرسین تشریف لے گئے۔ اور ۱۳۷۸ھ؍۱۹۵۸ء تک تقریباً آٹھ سال بیگانوں، بد اعتقادون کے جھُرمٹ میں انتہائی ہمت و عزیمیت اور عظمت وقار کے ساتھ تدریس ، تبلیغی اور فتویٰ نویسی کی خدمات میں مصروف رہے۔
پالن پور روانگی
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ ۱۳۷۸ھ؍۱۹۵۸ء میں نواب اہلِ پالن پور کی خواہش و عوت پر پالن پور گجرات مدرسہ اسلامیہ میں بحیثیت صدر المدرسین تشریف لے گئے۔ اور تقریباً چھ ماہ تدریس خدمات کے ساتھ فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیں۔ پالن پور میں ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے کہ مفتی عبدالسلام کو آشوب چشم کا عارضہ ایسا لاحق ہوا کہ ممکن علاج کے باوجود وہاں ثابت قدم رہنا ایک دشوارمسئلہ بن گیا۔
نواب صاحب کی طرف سے ایک بہترین ڈاکٹر صرف مفتی عبدالسلام کے لیے رکھا گیا۔ جو ہفتہ میں متعدد بار چیک کرتا حتیٰ کہ کھانا تک چیک کرتا، مگر چونکہ مشیت الٰہی نے مفتی عبدالسلام کو کہیں اور ہی کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ اس لیے ہر طرح علاج وآسائش کے باوجود افاقہ نہ ہوا، بالآخر ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۸ء ہی میں اپنے وطن تشریف لے آئے، اور مکان پر رہ کر مستقل علاج کرایا۔
پاکبڑہ روانگی
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمۃ ۱۳۷۹ھ؍ ۱۹۵۹ء کے اوائل میں پاکبڑہ مراد آباد تشریف لے گئے۔ اور ۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۱ء تک تقریباً ڈھائی سال رہے۔ اس دوران وہاں کےلوگ میں دینی جذبہ اور م ذہبی اسپرٹ پیدا کرنے کے لیے مفتی عبدالسلام نے جامع مسجد سے متصل مدرسہ اہلسنت غفور العلوم کےنام سے ایک علمی باغ لگایا۔ اور لگاتا ر محنت و جانفشانی کر کے اسے بامِ عروج تک پہونچانا۔
جامعہ سلامیہ کی نشاط ثانیہ
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ ۱۳۸۱ھ ۱۹۶۱ء میں اہل بستی کے بے پناہ خواہش اور بے حد اصرار پر باکبڑہ مراد آباد سے پھر سرائے ترین سنبھل تشریف لے آئے۔ اور ۴؍اگست ۱۹۶۱ء؍۱۳۸۱ھ سے اسی دارالعلوم جامعہ سلامیہ کا آغاز فرمایا، مفتی عبدالسلام کے آنے سے دوبارہ اس میں جان پڑگئی۔
جلو س محمدی کا آغاز
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ نے اسی سال ۱۳۸۱ھ؍ ۱۹۶۱ء میں جلوس محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تحریک شروع کی۔ ہر چند کہ بد اعتقاد وعلماء وہابیہ اور بڑے بڑے سر کردہ لوگوں نے اس تحریک میں مفتی عبدالسلام کی سخت مخالفت کی۔ مگر انجام کار مخالفین کی ساری مخالفتیں اور کوششیں سعی لاحاصل سے آگے نہ بڑھ سکیں، اور جلوس محمدی کا آغاز ہونا تھا ہوکر رہا۔
سیاسی بصیرت
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ اگر ایک طرف شریعت و طریقت آشنا مردِ درویش ایک عظیم فقیہہ راسخ العقیدہ عالم دین تھے، تو دوسری طرف سیاسی تدبر میں بھی درجۂ کمال رکھتے تھے، علمی لیاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت پر بھی مفتی عبدالسلام کو کامل عبور حاصل تھا۔ تاہم ظاہری طور پر کبھی سیاسی میدان میں نہیں آئے۔ ظاہری اور گندی سیاست سے ہمیشہ کناورہ کش رہے۔ البتہ تحریک آزادی کی لہر میں اپریل ۱۹۴۶ء؍۱۳۶۵ھ کی آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شریک و مشیر رہے۔ مفتی عبدالسلام کے اندر اپنی رائےکی حکمت و افادیت اور صحت و معقولیت سےمخاطب کو ہم آہنگ کر کےاپنا ہمنوا بنالینے والی ہیں۔ وہ صلاحیت تھی جسکی بنیاد پر اگر ایک طرف دارالعلوم جامعہ اسلامیہ کی نظامت علیا کی زمام سنبھالے ہوئے تھے تو دوسری طرف مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم سنبھل کے بھی نائب ناظم اعلیٰ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے رہے تھے۔
کردار واخلاق اور عادات وخصائل
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ نےانتہائی سادہ، نیک، باوضع اور باخلاق مزاج پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہر وباطن کی ہم آہنگی لفظ و معنی کی ہم آہنگی، صورت وسیرت کی یکسانیت غرضیکہ مفتی عبدالسلام حسن وصورت اور جمال سیرت دونوں کے پر کشش امتزاج کی نظیر تھے۔
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمۃ کی عادات وخصائل کا بیان کرنا اتباع اور اطاعت رسول کی جیتی جاگتی تصوریر کا کھینچنا ہے۔ اپنے بیگانے بھی تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے۔ خود داروں کے سامنے طبیعت میں بے حد خود داری اور بے نیازی تھی۔ جن امراء ورؤسا میں تمکنت کاشائبہ پاتے ان سے بوقت ملاقات خود داری کا اظہار فرماتے۔ لیکن جب عوام سے ملتے تو بڑی انکساری وبشاشت سے ملتے۔ بزرگوں سے بڑے نیاز مندانہ، احباب سے نہایت مخلصانہ، طلبہ اور شاگردوں سے بڑے ہی ہمدرد نہ طور پر ملتے علمائے کرام کی بے پایاں عزت وتکریم کرتے تھے۔
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
بچے مومن کا حقیقی سرمایہ در حقیقت عشق رسول ہی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین تمام اولیاء، عظام کی مبارک زندگی کے مطالعہ کے بعد نظر اسی نکتہ پر رُکتی ہے کہ ان سب حضرات کی زندگی ہمیشہ عشق رسولﷺ کے محو پر گھومتی رہی۔ مفتی عبدالسلام کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع یہی عشق رسول تھا۔ تادمِ حیات ظاہری وباطنی زندگی میں عشق نبوی علیہ السلام کی روشنی برابر جگمگاتی رہی۔ یہ عشق صادق ہی کا نتیجہ تھا کہ درس حدیث کے وقت اکثر آنکھیں بے اختیار اشکبار ہوجاتیں۔
معمولات
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمۃ قرآن کریم سے خاص شغف رکھتے، اور اس کی بکثرت تلاوت فرماتے، جب کبھی کسی طرح کی کوئی پریشانی یا دشواری آتی۔ فوری تلاوت شروع فرمادیتے اور اس طرح سے تلاوت فرماتے کہ دوسرے تیسرے روز میں پورا قرآن پاک ختم فرمالیتے شب براءت ، شب قدر کے شبینوں میں بہ شوق شرکت فرماتے اور خوب پڑھتے۔ کبھی کبھی دس دس پندرہ پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ دیتے۔ بار ہا شبینوں میں ایسا ہوا کہ مفتی عبدالسلام نے صرف اپنے اُستاد ذادے حافظ کرامت اللہ اور اپنے برادر زادے حافظ محمد ظہور کولے کر ایک ہی شب میں پورا قرآن کریم ختم فرمایا۔ مفتی عبدالسلام نے مسلسل تیس ۳۰ سال رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن پاک ختم فرمایا۔ آپ عابد شب زندہ دار ا ور تہجد گذار تھے۔
مرغوبات
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کھانے میں حلوہ، رساول، دودھ کی کھیر اور امرود کی چاٹ بے حد پسند فرماتے۔ تقریباً ہر میٹھی جائز چیز پسند فرماتے، پھلوں میں آم، کیلا، اور خربوزہ بہت مرغوب رکھتے تھے چائے سے حد درجہ شوق رکھتے تھے۔ نشہ آور چیزوں سے سخت اجتناب کرتے اور کھانا کھانے کے بعد اکثر سفوف استعمال فرماتے۔
تصانیف
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کی دینی وملی خدمات صرف درس وتدریس اور ارشاد تبلیغ ہی میں محصور نہیں، بلکہ ان سب کے ساتھ قلمی جہاد بھی فرمایا، کثرت کارکی بنا پر مفتی عبدالسلام اس سلسلہ کو دراز نہ کر سکے، تاہم متعدد کتابیں ضرور تصنیف فرمائیں۔ لیکن افسوس کہ اب تک کوئی تصنیف منظر عام پر نہ آسکی۔
۱۔ شرح نور الانوار: یہ درس نظامی میں داخل نصاب کتاب نور الانور کی شرح اور اصول فقہ سے متعلق کچھ ضروری نہایت مفید نوٹ ہیں۔ یہ مفتی عبدالسلام کی علمی وفنی صلاحیتوں کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
۲۔ نور الایمان: اس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ حج اور دیگر عبادات نیز جملہ معاملا ت میں روز مرہ پیش آنے والے مسائل، ان کے علاوہ کچھ علمی مباحث آیات قرآنیہ احادیث نبویہ، اور اقوال علما مجتہدین کی روشنی میں نہایت آسان پیرائے میں پیش کیے گئے ہیں۔
۳۔ رد شریعت یا جہالت: یہ وہابی، دیوبندی جماعتی کے مبلغ اعطم نام نہاد مولوی پالن حقانی گجراتی کی رسوائے زمانہ کتاب شریعت یا جہالت کا حقائق کی روشی میں بڑا علمی اور معلوماتی ردو جواب ہے۔
ان کے علاوہ مختلف علوم و فنون کی متعدد کتابوں پر مفتی عبدالسلام کے بڑے مفید اورمعلوماتی ح واشی پائےجاتےہیں۔
بیعت وخلافت
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ نے علمی تشنگی کے ساتھ ساتھ روھانی تشنگی کو بھی زمانۂ طالب علمی ہی میں محسوس فرمالیا تھا۔ چنانچہ اس کو سیرابی میں تبدیل کرنے لیے اُستاذ محرم اجمل العلماء مولانا محمد اجمل شاہ نعیمی رضوی کے ہمراہ مرکز علم وعقیدت بریلی شریف حاضر ہوکر اعلیٰحضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے خلف اکبر حجۃ الاسلام حضرتمولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پر سلسلۂ قادریہ رضویہ سے منسلک ہوئے، اس کے کچھ عرصہ کے بعد مفتی عبدالسلام کے محسن مفتی محمد اجمل شاہ نعیمی علیہ الرحمہ نے خصوصی کرم فرمایا ار اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ جو ان کو اعلیٰحضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی، قدس سرہٗ سے حاصل ہوئی تھی۔
اس کے بعد ۱۷؍جمادی الآخرہ ۱۳۹۷ھ؍ ۱۹۷۷ء کو حضرت مولانا شاہ ساجد علی خاں رجوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نےمفتی عبدالسلام کو یاد فرمایا۔ اور سند خلافت واجازت عطا فرمائی۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر مخصوص تعویذات کی اجازت سرائےترین سنبھل کےایک سفر میں خود حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نےمفتی عبدالسلام کے مکانپر زبانی عطا فرمائی۔
حج وزیارت
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ عبانالمعظم ۱۴۰۱ھ؍۱۹۸۱ء کی چودہویں شب میں سامان عشق کے ہمراہ، تکبیر ورسالت کے فلک پیمانوں کی گونج میں مکان سے روانہ ہوئے اور تقریباً پانچ ماہ حرمین طیبین میں نور وبرکت اور رحمت و مغفرت کی بارش میںنہاکر دیار حبیب کےج لوے نگاہوں میں بساکر اوائل محرم الحرام ۱۴۰۲ھ میں واپس تشریف لائے۔ اس مبارک سفر میں مکمل چالیس روز تک دربار رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر رہے۔
فیض العلوم کا قیام
شروع اکتوبر ۱۹۷۹ء؍۱۳۹۹ھ میں خلوص و محبت کا وہ عظیم قلعہ دار لعلوم جامہ سلامیہ جسے مفتی عبدالسلام نے بڑے خلوص اینٹوں اور خون جگر کے گارے سے تعمیر کیا تھا، ایک منظم سازش کے تحت کچھ ایسے نا مساعد اور بحرانی حالات سے دوچار ہوا۔ اور ۲۱؍اکتوبر ۱۹۷۹ء؍۱۳۹۹ھ کو مفتی عبدالسلام جامعہ سلامیہ سے مستعفی ہوئ۔ کچھ عرصہ کے بعد ۱۴۰۰ھ؍ ۱۹۸۰ء میں سرائے ترین سنبھل کے ایک بزرگ حضرت سید جلال الدین شاہ عرف بھورے شاہ میاں رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے سےمتصل مدرسہ اہلسنت عربیہ فیض العلوم کا قیام عمل میں آیا۔ تاحین حیات مفتی عبد السلام اس مدرسہ کےشیخ الحدیث مفتی اور ایک عظیم سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
حلیۂ مبارکہ اور ملبوسات
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی، قدمیانہ قدرے طویل، جسم بھاری مگر متناسب، چہرہ بڑا اور رعب دار، پیشانی خوب چوڑی سعادت آثار، ناک بڑی ذرا وبیز، داڑھی لمبی اور خوب گھنی، سینہ چوڑا اور قران اس کے انوار وبرکات سے بھرا ہوا۔
لباس سادہ اکثر کپڑے کی چوڑی گوٹ والی (دوپلی) ٹوپی، کلی دار گھٹنوں سے نیچا کرتا، اس کے اوپر صدری، ٹخنوں سےاونچا پائجامہ، بہت زمانہ شلوار نما مغلیہ انداز کا استعمال فرمایا پھر سادہ علی گڑھ ی انداز کا استعمال کرنا شروع کردیا، اور آخر تک یہی استعمال فرمایا۔ جمعہ اور سفر میں شیر وانی زیب تن اور عمامہ زیب سر فرمایا۔ اس کے علاوہ کاندھے پر رومال اور ہاتھ میں عصا مستقل رکھتے۔ پاؤں میں جے پوری انداز کےناگرہ جوتے اور سیدھےہاتھ میں بریلی شریف کی نقش والی انگھوٹی استعمال فرماتے۔
خلفاء
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کے خلفاء میں دو حضرات قابل ذکر ہیں۔ مولانا مفتی قاری محمد انوار الحق رضوی سلامی اور مولانا زاہد علی رضوی سلامی۔
مکرمی مولانا زاہد علی رجوی سلامی کو وصال سے صرف ۲۷، روز قبل مورخہ ۲۲؍شعبان المعظم ۲۱؍اپریل ۱۹۸۷ء ۱۴۰۸ھ میں ایک جلسہ عام میں کثیر علماء کی موجودگی میں باضابطہ رسم جانشینی اور اجازت و خلافت عطا ہوئی۔ مولانا زاہد علی صاحب علم وفضل اور حافظ قرآن ہیں۔ مفتی عبدالسلام کے صحیح جانشین ہیں۔ آج کل دارالافتاء الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں نائب مفتی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ روا افزوں ترقی عطا فرمائے۔ آمین)
چندتلامذہ
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کی پچاس سالہ تدریسی خدمات میں تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہم یہاں پر صرف ان چند خوشہ چینوں کےنام کا ذکر کرتےہیں جنہوں نے مفتی عبدالسلام کے خرمنِ عم سے خصوصی فیضان حاصل کیا۔
۱۔ مولانا ضمیر حسین سلامی مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
۲۔ مفتی قاری محمد انوار الحق رضوی دمکوی ضلع بریلی
۳۔ مولانا محمد لیاقت حسین رضوی بریلوی
۴۔ مولانا غلام یٰسین سلامی بہاری
۵۔ مولانا غلام ابو القاسم اشرفی بہاری
۶۔ مولانا محمد یوسف اشرفی راجستھانی
۷۔ مولانا زاہد علی رضوی سلامی سنبھلی
۸۔ مولانا الحاج محمد یوسف سلامی بلرام پوری
۹۔ مولانا عبدالخالق سلامی بنگالی
۱۰۔ مولانا عبدالمنان سلامی بنگالی
۱۱۔ مولانا عبدالرشید قادری کشمیری
۱۲۔ مولانا سید احباب الدین قادری کشمیری
ناسازئ طبع
حضرت مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ مسلسل چند سالوں کے دوران کئی دفعہ سخت علیل ہوئے۔ جس سے ذہنی دماغی اور اعصابی قوتوں پر خاصا اثر پڑ چکا تھا۔ مگر پھر بھی فریضۂ پنجگانہ کی ادائگی کے لیے ہمیشہ پانچواں وقت مسجد میں تشریف لاتے، اور کھڑے ہوکر نماز ادا فرماتے، ماہ وصال رمضان المبارک میں مفتی عبدالسلام نے چار روزے سے اور پانچویں روز کی مکمل بیس ۲۰ رکعت تراویح باجماعت کھڑےہوکر ادا کیں مشئیت ایزدی کہ اسی پانچویں شب میں مرض الوصال کا آغاز ہوا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے طبیعت سخت ناساز ہوگئی۔ اس کے باجود مفتی عبدالسلام نے پانچویں روزے کی سحری کھائی اور عزم روزہ فرمالیا۔ سخت علالت و نقاہت کے باوجود دوپہر تک یو ہیں بہ نیت روزہ رہے مگر جب دوپہر کو اہل کانہ نے دیکھا کہ شام تک مفتی عبد السلام کا یو ہیں روزے میں رہنا زیادتی علالت، اور سخت نقاہت کا باعث ہوسکتا ہے جس پر بعد میں قابو پانا بہت دشوار ہوجائےگا۔ تو بے حد اصرار کر کے ضرورتاً مختصر سا کھانا کھلادیا۔ اس کے بعد تادم وصال مسلسل چودہ روز تک اسی نازک اور امتحانی حالت میں رہے۔ شہر کے بڑے بڑے حکیموں اور ڈاکٹروں کے علاج معالجہ کے باوجود شدت مرض میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔
وصال
مفتی عبدالسلام علیہ الرحمہ کا وصال ۱۹؍رمضان المبارک ۱۸؍مئی ۱۹۷۸ء؍ ۱۴۰۷ھ بروز دوشنبہ دوپہرٹھیک گیارہ بج کر ۵۵منٹ پر ہوا اور اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرماکر اپنے پروردگار حقیقی سے جا ملے[1]۔
[1]۔ مکتوب مولانا زاہد علی رجوی بنام راقم محررہ ۹؍دسمبر ۱۹۸۹ء ۱۲،رضوی غفرلہٗ