حضرت علامہ مفتی خادم حسین جتوئی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 1348 | شوال المکرم | 15 |
حضرت علامہ مفتی خادم حسین جتوئی (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ مفتی خادم حسین جتوئی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مردم خیز سرزمین سندھ نے اسلام اور اسلامی علوم و فنون کے عروج کے دور میں جن علمی شخصیات کو جنم دیا ان میں اسے استاد العلماء ، شیخ طریقت ، عالم باعمل ، امام المناطقہ حضرت علامہ الحاج کادم حسین جتوئی بھی ایک ہیں۔
ولادت:
مولانا خادم حسین بن فقیر محمد جیئل، بلوچ قبلہ کی جتوئی شاخ سے تھے او رنسبی تعلق سندھ کے آخری کلہوڑا حاکم میاں عبدالنبی کے سپہ سالار اور معتمد خاص دگانو خان جتوئی سے تھا۔آپ کی ولادت ۶۸۔۱۸۶۷ء میں گوٹھ شاہ پور (تحصیل گڑھی یاسین ضلع شکار پور) میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ کو بچپن میں اپنے گوٹھ سے قریب گوٹھ جندو دیرو میں حضرت مولانا جان محمد بھٹو کے مدرسہ میں داخلہ دلایا گیا، جہاں قرآن مجید اور سکندر نامہ تک درسی نصاب پڑھا اس کے بعد قریب ہی گوٹھ ترائی میں مولان قاضی عبدالرزاق ( جو کہ استاد کل علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی علیہ الرحمۃ کے تلمیذ تھے) کے مدرسے میں داخلہ لیا جہاں مزید تعیم حاصل کی اور انہی دنوں اپنے استاد محترم کے ساتھ حرمین شریفین جا کر حج بیت اللہ کی ادائیگی کی اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ حرمین شریفین کی واپسی پر رتو دیرو میں حضرت مولانا عبداللہ نوناری (مدفون مسجد رتودیرو) کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور اسی مدرسہ میں درس نظامی کی تکمیل کی اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ دوران تعلیم مولانا خادم حسین اپنے استاد محترم کی اجازت سے اس دور کے مشہور فلسفی حضرت علامہ محمد اسماعیل صاحب (تلمیذ رشید استاد الکل، مرد حق، مجاہد کبیر، حضرت علامہ فضل حق شہید خیر آبادی علیہ الرحمۃ) کی خدمت میں (گوٹھ ابڑوتحصیل قمبر ضلع لاڑکانہ میں ) حاضر ہوئے اور ایک ماہ کی مختصر مدت میں فلسفہ کی مشہور کتاب ’’میبذی ‘‘پڑھی ، پر اپنے استاد محترم کے پاس واپس آئے اور وہیں رتودیر و میں تکمیل کی ۔
مولانا درس نظامی کی تکمیل کے بعد ریاست بہاولپور کے مشہور اور قدیمی علمی مرکز بھنگ شریف تشریف لے گئے اور اس دور کے شہرہ آفاق منطقی و فلسفی عالم حضرت علامہ نذر محمد صاحب اندھڑ کی خدمت میں تین سال قیام کیا اور ان سے علم کلام فلسفہ اور منطق کبریٰ کی کتب پڑھیں۔
درس تدریس :
بھنگ سے واپسی پر اپنے استاد محترم علامہ عبداللہ نو ناری صاحب کی خدمت میں رتو دیر و تشریف لائے۔ مولانا نوناری اپنے شاگرد کی غیر معمولی قابلیت اور علمی کمالیت سے متاثر ہو کر نہ صرف اپنا علمی جانشین یعنی مدرسہ کا مدرس اول مقرر کیا بلکہ خود بھی اپنے شاگرد سے علم کلام فلسفہ اور منطق کبریٰ میں استفادہ کیا ۔ مولانا خادم حسین رتودیر و میں تین سال تدریس کا کام کیا ۔ ا سکے بعد ۱۹۰۰ء میں عارف کامل قاضی القضاۃ حضرت علامہ مفتی عبدالغفور صاحب ہما یو نی رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر گوٹھ بھلیڈ نہ آباد (تحصیل جیکب آباد ) میں دینی مدرسہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے جو کہ وہیں کی ممتاز زمیندار شخصیت الحاج اوستہ کریم ڈنہ خان نے قائم کیا ہوا تھا۔
۱۹۱۰ء میں مدرسہ کی انتظامی معاملات پر مدرسہ کے بانی سے اختلاف کی بنیاد پر بھلیڈنہ کے مدرسہ کو چھوڑ کر جیکب آباد وارد ہوئے اور احباب کے اسرار پر جامع مسجد کے مدرسہ میں درس و تدریس کا کام جاری رکھا۔ ۱۹۱۵ء میں وزیراعلی سندھ اللہ بخش سو مرو شکار پوری کے والد حاجی محمد عمر سومرو کی استدعا اور اسرار پر دوبارہ بھلیڈنہ ااباد کے مدرسہ تشریف لے گئے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور بانی مدرسہ اوستہ کریم ڈنہ کی زندگی تک یعنی ۱۹۲۴ء تکوہیں سکونت پذیر رہے ۔ اوستہ کریم صنہ کی وفات کے بعد انتظام صحیح نہ ہو نے کی وجہ سے رتو دیر و ااکر قیام کیا اور اپنا مدرسہ قائم کیا اور وہیں دین اسلام کی خدمت ، درس و تدریس ، تلقین و ارشاد ، ذکر واذکار کا مشغلہ تاحیات جاری رکھا ۔
دیار حبیب:
مولانا صاحب طالب علمی کے زمانہ میں جیسے ہم پہلے لکھ کر آئے ہیں کہ اپنے استاد محترم کے ساتھ حج کر چکے تھے ۔ مگر واپسی پر اپنا جسم خاکی ساتھ لائے تھے لیکن روح وہیں چھوڑ کر آئے تھے ۔ اگر دینی علو م حاصل کر نا اور خلق خدا کو مستفیض کرنے کا خیال دامن گیر نہ ہوتا تو شاید مولانا صاحب وطن واپس نہیں آتے ۔ وطن واپسی کے بعد دیار حبیب کو جانے کے لئے تڑپتے رہتے تھے بار بار انہیں حضور ﷺ کا آستانہ عالیہ یاد آتاتھا ۔ عشق رسول اللہ ﷺ جو کہ ا ن کا سرمایہ حیات اور سرمایہ ایما ن تھا ۔
کہ بود یارب کہ رودر مدینہ و بطحا کنم
کہ بہ مکہ منزل و لہ در مدینہ جاکنم
۱۹۰۴ء میں آپ کی آرزو پوری ہوئی دیار حبیب ﷺ کا سفر اختیار کیا، حج بیت اللہ اور محبوب مد نی ﷺ کے آستانہ بوسی کا شرف حاصل کیا۔
بیعت وخلافت :
۱۹۰۹ ء کو شیخ طریقت حضرت خواجہ محمد عمر جان نقشبندی (خانقاہ چشمہ شریف کوئٹہ ، بلوچستان ) بھلیڈنہ ااباد تشریف فرما ہوئے ۔ اسی روز ایک محیر العقول واقع رونما ہوا جس کے سبب مولانا صاحب ، حضرت چشموی صاحب کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے ۔ مولا نا صاحب ، درس و تدریس کے ساتھ ذکر واذکا ر اور ادووظائف اور تزکیہ نفس میں مشغول ہو گئے۔ ۱۹۱۴ء کا زمانہ تھا اور شعبان المعظم کا آخری دسواں تھا کہ آپ کے پیرو مرشد کی طرف سے بلاوا آگیا ۔ آپ مرشد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے تمام مصرافیات ترک کر کے فوری طور پر چشمہ شریف کے لئے روانہ ہو گئے ۔ اور وہیں پہنچ کر رمضان المبارک مرشد کریم کے آستانہ پر گذارا، دن رات صحبت با فیض میں بیٹھ کر فیضیاب ہوتے رہے اور آخری دسواں اعتکا ف میں گذارا اور عید الفطر کے بابرکت و پر مسرت موقعہ پرپیر و مرشد نے خلافت عطا فرمائی ۔
خلافت سے پہلے آپ کی شخصیت منقول و معقول کے طلباء کے لئے مرجع تھی اور بعد میں عوام و خواص سلوک و عرفان کے متلاشی سبھی کے لئے مرجع ہو گئی اور ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق فیو ض اخذ کر رہے تھے ۔
واعظ تقریر :
وعظ و نصیحت اور دین کی تبلیغ آپ کا شیوہ تھا ، مگر حق پسندی اور حق گوئی کے باوجود اس کو ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنہ‘‘۔(پارہ ۱۴، الخل ، آیت ۱۲۵)
ترجمہ : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاو پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ۔
تک محدود رکھتے تھے ۔ البتہ بد اعتقادی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرتے تھے اور اس کی اصلاح کے لئے حتی المقدورادر ہر ممکن کوشش کرنا ضروری سمجھتے تھے ۔ حضور پر نورﷺ کی متابعت کو دنیا و عقبی کی فلاح و نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔ مولانا اعلی پائے کے فصیح اللسان اور جادو بیان مقرر تھے ، اپنی سحر انگیزی اور رنگین بیانی سے سامعین کے دل و دماغ کے پوری طرح سے اپنی گرفت میں رکھتے تھے ۔
تصنیف و تالیف :
مولانا مر حوم نہ صرف اعلی پایہ کے معلم و مدرس تھے مگر عدیم المثال محقق اور مفتی بھی تھے ۔ قدرت نے انہیں ’’صاحب البیان و البنان ‘‘ پیدا کیا تھا یعنی قوت تقریر کے ساتھ قوت تحریر بھی و دیعت کی ہوئی تھی ۔ قدرت کی طرف سے انہیں غیر معمولی ذہانت کے ساتھ قوت حافظہ بھی غیر معمولی ملا ہوا تھا ۔فقہی مسائل میں پوری تحقیق اور تدقیق سے فتویٰ جاری فر ماتے تھے،
فتویٰ کا انحصار ہمیشہ متفق علیہ یا کم از کم مر جع قول پر ہو تا تھا ۔ تحریر کا ہر لفظ سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔
(مگر افسوس !بلند پایہ عالم دین کے فتاویٰ و دعگر رسائل پر نہ کام ہو سکا اور نہ ہی محفوظ رکھے جا سکے بلکہ وہ ضائع ہو گئے )
منا ظرے:
مولانا بہترین مناظر تھے ، غیر معمولی علمیت اور قوت تقریر کے علاوہ علم کلام و منطق کبریٰ قاعدہ مطالعہ نے آپ کی مناظر انہ صلاحیت میں زبردست قوت پیدا کی تھی ۔ مولانا اہلسنت و جماعت کے نا مو ر عالم دین تھے ، مسلکا حنفی اور مشربا نقشبندی تھے۔ پوری زندگی ’’ما انا علیہ و اصحابی ‘‘پر عمل پیرار ہے اور ’’امز بالمعروف ‘‘ اور’’ نھی عن المنکر ‘‘ کے پابند تھے ۔
مناظروں میں مولانا کے ہاتھوں باربار شکست کھانے کے سبب باطل پرست (شیعہ ، دیو بندی ،وہابی ، غیر مقلدوغیرہ ) کے دلوں میں مولانا کا شخصیت کا دبد بہ تھا کہ مولانا کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتے تھے اور’’جاء الحق و زھق الباطل‘‘ کی مصداق راہ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے ۔
تلامذہ:
حضرت مولانا مفتی خادم حسین جتوئی کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے یہاں بعض کے اسماء درج کئے جا رہے ہیں ۔
٭مولانا مفتی عبداللہ درخانی ( صاحب فتاوی درخانی ) درخان ضلع ڈھاڈر (بلوچستان )
٭مولانا قاضی عبدالعزیز مستونگ ( بلوچستان )
٭ مولانا قاضی حبیب اللہ قریشی لسبیلہ (بلوچستان)
٭ مولانا نامولاداد مستونگ ( بلوچستان )
٭ مولانا فتح محمد مستونگ (بلوچستان )
٭مولانا محمد حسین مکران (بلوچستان )
٭مولا نا قاضی رسول بخش جھل مگسی (بلوچستان)
٭ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی سلطان کوٹ (ضلع شکار پور )
٭ مولانا الحاج الھداد سبی (بلوچستان)
٭قاضی نور محمد مٹھڑی
٭مولانا عبدالرحمن ’’ضیائی ‘‘پتافی میر پور ماتھیلو (سندھ )
٭ مولانا محمد عظیم ’’شیدا ‘‘ سولنگی ( مصنف سیرت مصطفی) نصیر آباد لاڑکانہ
٭واعظ اسلام مولانا محمد سلیمان نوناری تھرڑی محبت تحصیل میہڑ
٭مفتی عبدالکریم عباسی خیر پور
٭مو لوی محمد عارف ملتان
٭ مولوی عبدالغفور رحیم یار خان
٭ مولوی امید علی دیوبندی صدر مدرس مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی
٭مولوی دین محمد وفائی وہابی (مولف تذکرہ مشاہیر سندھ )
٭مولوی عبدالعزیز صدر مدرس مدرسہ عزیز یہ تودیرو
٭ علامہ فتح علی جتوئی اصغر صدر مدرس مدرسہ ہاشمیہ سجاول
٭ مولوی سلطان احمد جتوئی دیوبندی (داماد مولانا خادم حسین ) رتودیر و
خلفائ:
درج ذیل حضرات مولانا کے شاگرد اور تربیت یافتہ خلفاء بھی تھے ۔
٭خلیفہ اول مولانا الحاج غلام عمر تونسہ شریف
٭خلیفہ دوئم مولانا الحاج محمد ہاشم انصاری نوابشاہ
٭خلیفہ سو ئم مولانا الحاج سید امیر احمد شاہ امینانی شریف ضلع دادو
٭خلیفہ چہارم مولانا محمد سلیمان میرانی سکھر
احباب :
٭حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یا سینی ؒ
٭ مولانا حافظ مفتی محمد ابراہیم نا طم یاسینی
٭ مولانا سید محسن علی شاہ بخاری میاں جو گوٹھ
٭ مولانا نبی بخش عودی جیکب آباد
٭ مولانا عطا محمد عباسی رتودیرو
٭ مولانا عبداللہ لاکھو بنگلہ دیر و
٭ مولانا عبدالوہاب اوستہ محمد (بلوچستان )
٭مولانا میر محمد نورنگی جاگیرانی قمبر
٭ مولانا قمر الدین اندھڑ پنو عاقل
٭ مولانا عبدالعزیز عمرانی جیکب آباد
٭ مولانا در محمد لغاری صدر مدرس مدرسہ جھنڈو شریف
٭مولانا قاضی گل حسن قادری درگاہ کٹبار شریف ( بلو چستان )
اولاد :
مولانا خادم حسین نے ایک شادی کی تھی جس میں سے ۳ لڑکے اور ایک لڑکی تولد ہوئی ۔ (۱)مولوی نذیر حسین جتوئی ( جس نے یہ مضمون سندھی میں لکھا اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر بنا ) (۲) میاں بشیر حسین (۳) امیر حسین ایڈوکیٹ سکھر (۴) ایک لڑکی جس کا نکاح مولوی سلطان احمد جتوئی سے بیاہی جو کہ بعد میں دیو بندی بن گیا تھا۔ ( میاں بشیر حسین جتوئی کے بیٹے حاجی امداد حسین جتوئی آج کل لارکانہ شہر کے لاہوری محلہ میں سکونت پذیر ہیں اور اہلسنت و جماعت کے سر گرم کارکن ہیں )
وصال:
علم و عمل کے پہاڑ، رشد و ہدایت کے سر چشمہ حضرت مولانا الحاج مفتی خادم حسین جتوئی تینتیس (۳۳) برس تک مسلسل و متواتر دین کی بے لوث اور بے غرض خدمت کر کے ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو طاہری اور باطنی فیض پہنچانے کے بعد ۱۵، شوال المکرم ۱۳۴۸ھ؍۱۵،مارچ ۱۹۳۰ء کو ۶۳ سال کی عمر میں سیکڑوں شاگردوں ، مریدوں ، احباب و عزیز و اقارب کی اشک رواں میں وصال کیا ۔ مولانا صاحب کو ان کی وصیت کے مطابق جند و دیرو گوٹھ میں مسجد شریف کے احاطہ میں آپ کے استاد اول حضرت مولانا جان محمد بھٹو کی مزار کے برابر میں دفن کیا گیا۔ (مولوی جان محمد بھٹو مترجم سندھی تفہیم القرآن از: مودودی ، وہابی تھا اور جماعت اسلامی کا سر گرم لیڈر تھا حال ہی میں اس کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق اسے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ (لاہور ) میں دفن کیا گیا۔ جان محمد بھٹو وہابی کے دادا مولانا جان محمد بھٹو صحیح العقیدہ ، بزرگ ، عالم دین اور متقی پرہیز گار شخصیت تھے ۔)
مولوی نذیر حسین جتوئی نے اپنے والد محترم کے وصال پر فارسی میں قطعہ تاریخ وصال کہا جو کہ درج ذیل ہے:
شکوہ گویم زگردش ایام نیست حاصل بے کس ثبات و دوام
آہ! خادم حسین علامہ بے کراں بحر در علوم تمام
عالم جید عدیم المثل ہمہ احکام دین شدہ الہام
صاحب ذکر و فکر و اھل اللہ زہد و تقویٰ اسیر کردہ بدام
بے شبہ نقشبند در عالم فیض حق شد بذات آں انعام
احسن الخلق، خلقہ القرآن در عمل شد مجسم اسلام
از جتوئی قبیلہ یافت ظہور بود مقبول درھم اقوام
شت یک شنبہ پانزدہ شوال سوی جنات عدن تافت زمام
موت عالم زموت عالم شد فرش تاعرش شد ہمہ آلام
مستفیتان فیض آں حضرت از فراقش بمثل ماہ تمام
درد آگین دل خزین ’’نذیر آہ برلب ہمیشہ درماتام
متصل مسجد جندہ دیرہ مرقدش مر جع است خاص و عام
سال رحلت زغیب ھاتف گفت قد و صل فی جناب زی اکرام
۱۳۴۸ھ
مولانا مرحوم کے مخلص دوست حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یاسینی رحمۃاللہ علیہ نے بھی آپ کے وصال پر ایک قطعہ تاریخ کہی ۔ جس کے فقط تین مصرعے مل سکے جو کہ درج ذیل ہیں :
آہ خادم حسین بس مغفور عالم و فاضل و سراپا نور
شب یک شنبہ بودلیل وصال کہ بوصل خدا شد او مسرور
سال تاریخ او جو بر سیدم گفت ھاتف سنش ’’زہے مغفور ‘‘
۱۳۴۸ھ
(ماخوذ: سہ ماہی مہران جامشورو ، مطبوعہ سن ۱۹۷۱ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)