حضرت مولانا مفتی شرف الدین رام پوری قدس سرہٗ
پنجاب کے رہنے والے تھے،رام پور آکر تحصیل علم کیا،تمام علماء رامپور کا سلسۂ تلمذ ان پر ختم ہوتا ہے،نواب احمد علی خاں نے عہدۂ قضاءپر مقرر کیا،نواب صاحب دیوانے بن گئے،اہل کاروںنے نواب صاحب کے لیے جو تجویز کی،مفتی صاحب بھی اُس میں شریک تھے،سب کے خیالات سُن کر نواب صاحب نے اصل صورت اختیار کرلی،سب گرفتار ہوئے،مفتی صاحب کو ولایتی شاگرد قید سےنکال لے گئے، نواب کی رحلت کے بعد ۱۲۵۶ھ میں کلکتہ سےرام پور آئے،مولوی صدیق حسن غیر مقلدوں کے معتمد نےابحد العلوم میں مفتی صاحب کا ذکر متعصبانہ اور غیر منصفانہانداز میں کیا ہے، ‘‘ لکھتے ہیں’’ ‘‘یہ شخص شر فی الدین تھا،شرف الدین نہ تھا بہ شخص حواشی وشروحکتب درسیۂ کاحافظ تھا’’یہ دشنام،ہنکرین تقلید وہابیوں کے رد ومخالفت کا صلہ ہے، ۱۲۶۸ھ سال رحلت ہے۔
(تذکرہ کاملان رام پور)