مولانا مفتی ظفر علی نعمانی
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی (تذکرہ / سوانح)
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: مولانا مفتی ظفر علی نعمانی۔لقب:سید نا امام اعظم ابو حنیفہ سے محبت و نسبت کے سبب ’’نعمانی‘‘اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے جو کہ نام کا حصہ بن گیا۔ والد کااسم گرامی: مولانا محمد ادریس علیہ الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 15/نومبر 1917ء،مطابق ماہ صفر/1336ھ،کو’’سید پور‘‘ضلع بلیا،یو پی انڈیا میں ہوئی۔(روشن دریچے:201)
تحصیل ِعلم: آپ نے پرائمری تعلیم سید پور میں حاصل کی ۔ اس کے بعد خلیفہ اعلٰیحضرت مولانا رحیم بخش رضوی کے مدرسہ ’’فیض الغرباء ‘‘شاہ پور صوبہ بہار میںداخلہلیا ، قابل ترین اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میںشرح جامی تک کتابیں پڑھ لیں ، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اہل سنت و جماعت کی نامور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور ضلع اعظم گڑھ کا رخ کیا، وہیں داخلہ لے کر نصابی کتب کی تکمیل کے بعد 1351ھ ؍ 1942ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس درسگاہ میں دیگر علماء کے علاوہ حافظ ملت علامہ حافظ عبدالعزیز محدث مبارکپوری سے خصوصی طور پر استفادہ کیا۔
بیعت و خلافت :آپخلیفہ اعلیٰ حضرت ، صدر الشریعۃ علامہ مفتی امجدعلی ا عظمی ( صاحب ِبہار شریعت ) سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے ۔ اسی طرح حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا حامدرضاخاں علیہ الرحمہ کےخلیفہ بھی تھے۔(فقہاء سندھ کی علمی خدمات:279)
سیرت وخصائص: مفتیِ اہل سنت،محسن اہل سنت،استاذالعلماء والفضلاء،جامع کمالاتِ علمیہ وعملیہ،خلیفۂ صدر الشریعہ،مفتیِ اعظم پاکستان،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ظفر علی نعمانی رحمۃا للہ علیہ۔مفتی صاحب علیہ الرحمہ یادگار ِاسلاف اورایک علمی وروحانی شخصیت کےمالک تھے۔آپ علیہ الرحمہ کی زندگی جدوجہداور دینِ متین کی خدمت میں گزری۔
دارالعلوم امجد یہ کا قیام:حضرت صدر الشریعۃکے حکم پر 1948ء کو کراچی تشریف لے آئے ۔ یہاں امامت و خطابت درس و تدریس اور اشاعت دین کے اہم کام میں مصروف و مشغول ہوگئے ۔ اس کے ساتھ اسی سال گاڑی کھاتہ فیروز اسٹریٹ آرام باغ میں ایک مکان خرید کر مرشد کی یاد میں مدرسہ قائم کر کے ’’دارالعلوم امجد یہ ‘‘ کا ایک بورڈ لگا دیا، چنانچہ ابتدا میںآپ خود ہی مہتمم ، مدرس ، منتظم اور نگران سب کچھ تھے ۔ ایک عرصہ تک یہ مدرسہ اسی مکان میں مذہبی خدمات انجام دیتا رہا مگر یہ جگہ نا کافی ہونے کی وجہ سے مفتی صاحب نے حاجی ہارون میمن صاحب سے عالمگیر روڈ جگہ حاصل کر کے دارالعلوم امجد یہ وہاں منتقل کر دیا، بعد میں مزید جگہ لی گئی ، جستہ جستہ تعمیر ہوتی رہی۔ آج دارالعلوم کی پر شکوہ عمارت خوبصورت شکل میں مسجد امجدی کے متصل کراچی کے دل میں موجود ہے ۔ جہاں سے سینکڑوں علماء خطباء حفاظ اور قراٗ حضرات فارغ ہو کر ملک اور بیرون ملک میں تبلیغ و اشاعت دین کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
آپ نے دارالعلوم امجد یہ کے علاوہ پنجاب کے شہر سانگلہ ہل (ضلع شیخو پورہ ) میں ایک بہت بڑی قطعہ اراضی لے کر ’’مدرسہ اسلامیہ برکات القرآن‘‘ کی داغ بیل ڈال دی ، آج جس کی عمارت کئی کمروں اور کانفرنس ہال پر مشتمل ہے ۔ جہاں درس و تدریس کی شمع روشن ہے۔ مدرسہ کے تمام اخراجات مفتی صاحب اور آپ کے بھائی محترم مظہر علی نعمانی اپنی جیب سے برداشت کرتے رہے ۔
درس و تدریس:فارغ التحصیل ہوتے ہی مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے ۔ تقریبا ڈیڑ سال اساتذہ کرام کی نگرانی میںتدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد پیر و مرشد حضرت صدر الشریعۃ کے حکم پر کاٹھیاواڑ چلے گئے جہاں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت میں صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے لگے ۔ تقریبا ساڑ ھے چار سال کامیابی سے خدمات انجام دینے کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔ کراچی میں ساری زندگی ’’ دارالعلوم امجد یہ ’’ میںبحیثیت مہتمم خدمات عظیمہ سر انجام دیتے رہے ۔
شادی واولاد :مفتی ظفر علی نعمانی کا نکاح حضرت کے بڑے صاحبزادے مولانا حکیم شمس الہدیٰ اعظمی کی صاحبزادی سے 1951ء ؍ 1370ھ کو کراچی میں انعقاد پذیر ہوا ۔ قاضی نکاح خواں کے فرائض برادر نسبتی علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے انجام دیئے ۔ اس محفل میںکراچی کے علماء کرام مشائخ عظام اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔
ذریعہ معاش :تمام دینی مصروفیات کے باوجود آپ کا رپٹ ایکسپو رٹر کا کاروبار اپنے بھائی کے ساتھ کرتے تھے ۔
دینی وسیاسی سر گرمیاں :تحریک پاکستان میںاپنے اساتذہ کے ساتھ خدمات انجام دیں بعد میں استحکام پاکستان کیلئے سر گرم رہے۔ فیصلآباد میں دارالعلوم رضویہ مظہر الاسلام اور سنی رضوی جامع مسجد کی تعمیر و ترقی میں مفتی صاحب اور کراچی کے برکاتی رضوی میمن سیٹھ صاحبان نے بھر پور تعاون کیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد عظیم الشان سنی کانفرنس میں دامے قدمے سخنے تعاون فرمایا ۔ تحریک ختم نبوت کے دوران آپ نے علماء اہل سنت کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ کراچی میں ’’ تنظیم ائمہ مساجد اہل سنت ‘‘ قائم فرمائی اس کے بعد تنظیم سازی کا عمل جاری رکھا۔ جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے دوبار انتخابا ت میں حصہ لیا ۔ 1972ء میں ایک بار سینٹ کا انتخاب لڑا جس میں کامیابی ہوئی اور سینیٹر منتخب ہوئے ۔ سینٹ کے ریکارڈ میںان کی تقار یر انتہائی جامع اور مدلل ہوا کرتی تھیں ، انتہائی خدا ترس انسان تھے دین کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گہری نظر تھی ۔اسلامی نظر یاتی کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی رہے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے ۔ جماعت اہل سنت پاکستان ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، تحریک نفاذفقہ حنفیہ ، تحریک نظام مصطفی، نظام مصطفی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔
نشر واشاعت :آپ نے ابتدائی دنوں میں لٹر یچر کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی جس کے سبب آپ نے کراچی سے مکتبہ رضویہ سے اعلی حضرت امام احمدرضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے مشہور زمانہ نعتیہ کلام پر مشتمل کتاب ’’حدائق بخشش ‘‘ کو پاکستان میںپہلی بار شائع کیا۔فاضل بریلوی کے شہر آفاق ترجمہ قرآن کنز الا یمان پاکستان میں سب سے پہلے مفتی صاحب کو طبع کرانے سعادت حاصل ہوئی ۔ ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری کی تصنیف ’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ (جلد اول )بھی سب سے پہلے آپ نے 1960ء کو شائع کرائی ۔ پاکستان میں ’’عرس اعلی ٰحضرت ‘‘ کیابتدا ء کراچی میںمفتی صاحب نے فرمائی ۔
صحافت : مفتی صاحب نے ابتدائی دور میں ایک ماہنامہ ’’الا سلام ‘‘ آرام باغ سے جاری کیا تھا جس میں ملک کے جید علماء اور قلمکار دانشوروں کے پر مغز تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ ملک بھر سے آنے والے استفار کے جوابات بھی الاسلام میں شائع ہوتے تھے۔ استفار کے جوابات وقت کے مایہ ناز عالم دین، مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی کے رشحات قلم کے مرہون منت تھے ۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 20/رمضان المبارک 1424ھ، مطابق 16/نومبر2003ء بروز اتوار صبح 5بجےانتقال فرمایا۔ دارالعلوم امجد یہ میں علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مفتی وقار الدین قادری کی مزارات کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے ۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔روشن دریچے۔فقہاء سندھ کی علمی خدمات۔